خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں پولیس کے مطابق 24 جون کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے من موہن سنگھ نامی سکھ نوجوان کو قتل کر دیا۔
من موہن سنگھ کو پشاور کے علاقے کاکشال میں قتل کیا گیا۔
تھانہ یکہ توت کے سٹیشن ہیڈ آفیسر (ایس ایچ او) کامران مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’مقتول من موہن سنگھ کو 30 بور پستول سے سینے پر دو گولیاں لگی ہیں، تاہم حملہ آوروں کے حوالے سے تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔‘
موقعے پر موجود اے ایس آئی شعیب اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ واقعہ شام آٹھ بجے کے قریب پیش آیا جس کے نتیجے میں محلہ جوگن شاہ سے تعلق رکھنے والے من موہن سنگھ نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے موقعے پر ہی دم توڑ گئے، تاہم انہیں فوری طور پر لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا۔‘
’مقتول کی عمر تقریباً 38 سال ہے۔ وجہ قتل فی الحال معلوم نہیں ہو سکی، نہ ہی گھر والوں نے کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی کی کوئی بات کی ہے۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ دہشت گردی کا کیس ہے یا ذاتی دشمنی کا شاخسانہ۔‘
تھانہ یکہ توت کے مطابق ’مقتول من موہن سنگھ کے اہلخانہ کی جانب سے کوئی ایف آئی آر درج کرانے نہیں آیا ہے۔‘
چیف کیپٹل سٹی پولیس آفیسر اشفاق انور نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایس پی سٹی عبدالسلام خالد سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے 24 گھنٹوں میں سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
23 جون بروز جمعہ یکہ توت ہی کے علاقے میں ترلوک سنگھ نامی ایک دکاندار پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ ہوا تھا۔ سٹی پولیس حکام کے مطابق ’نامعلوم افراد فائرنگ کے بعد فرار ہوگئے تھے، تاہم اس حملے سے 30 سالہ ترلوک سنگھ کو پاؤں پر زخم آئے اور ان کی جان بچ گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں سال 31 مارچ کو ایک سکھ دکاندار دیال سنگھ کو بھی پشاور میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے حملہ کر کے قتل کیا تھا۔
اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سکھ کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے نیوز اکاؤنٹ ’سنگھ سبھا‘ کا کہنا تھا کہ ’مارچ 2023 تک سکھ کمیونٹی کے 28 لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر قتل اور زخمی کیا جا چکا ہے۔‘
پشاور میں سکھ کمیونٹی کی کثیر تعداد کا تعلق محلہ جوگن شاہ سے ہے جو ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔
محلہ جوگن شاہ میں سکھوں کے تقریباً آٹھ سو خاندان آباد ہیں۔
ان خاندانوں میں بھی کثیر تعداد ان سکھوں کی ہے جو قبائلی اضلاع میں خراب حالات کے باعث کوچ کرکے آئے ہیں۔