چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ملٹری کورٹس معاملے پر چھ رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس پر فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت کل (منگل) تک ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا دوران سماعت کہنا تھا کہ توقع ہے جب تک عدالتی کاررواٸی جاری ہے تب تک ملٹری کورٹس ٹراٸل شروع نہیں کرے گی۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے فوری حکم امتناع کی درخواست دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 102 ملزمان کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
پیر کی صبح جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا تو بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس یحیٰحی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔
سماعت کے آغاز میں ہی اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھا دیا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا تھا کہ مجھ پر اعتراض تو نہیں۔ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتے دار ہیں، اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ایک درویش انسان ہیں۔ کیا جسٹس منصور علی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کو فائدہ دیں گے؟ کیا حکومت پھر بینچ کو متنازع کرنا چاہتی ہے؟
’سپریم کورٹ نے اپنے الیکشن کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر حکمرانوں کے خلاف سخت ایکشن لینے سے گریز کیا، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کر رہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے؟ آپ کی چوائس کے بینچ نہیں بن سکتے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بینچ درست نہیں بنایا گیا۔ آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں۔ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔‘
اٹارنی جنرل کے اعتراض کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ اگر ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہو گا؟ عدالت کو بدنام مت کریں۔ اٹارنی جنرل ایک اعلیٰ معیار اور اچھے کردار کے وکیل ہیں۔ سپریم کورٹ کے بینچز پر لگاتار اعتراضات آ رہے ہیں۔‘
اس موقعے پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’میں نے تو پہلے ہی دن آ کر کہا تھا کہ کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ میرے رشتے دار ہیں۔‘
جس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے اس اعتراض پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔
حکومتی اعتراض کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ہم ابھی اٹھ رہے ہیں۔ آپس میں مشاورت کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
اس صورت حال پر وکیل درخواست گزار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’آج عدالتی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔‘
جبکہ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ‘یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے بنچ پر اعتراض نہیں بنتا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک اس نئے بینچ کا حصہ ہیں۔
چھ رکنی بینچ کی تشکیل کے بعد سماعت
ساڑھے 11 بجے سپریم کورٹ میں عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع دوبارہ شروع ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ ’اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آرہے ہیں۔ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعا کر رکھی ہیں۔‘ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ’میں ان سے میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا۔‘
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے۔‘
جسٹس عائشہ ملک نے اس موقعے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اپنے پہلے دن کے سوال پر واپس جاؤں گی، آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’کیا افواج کے اراکین کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ فوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ میں آئینی درخواست کیوں دائر نہیں کی جا سکتی تھی؟‘
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ’برطانیہ اور امریکہ میں بھی کچھ مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں، ہائی کورٹ فوجی عدالتوں کی حیثیت کا تعین نہیں کر سکتی۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’دہشت گردی کے ملزمان کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت ہی فورم ہے۔ آپ کی دلیل فورم سے متعلق ہے یا بنیادی حقوق کے معاملے پر؟‘
جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ’کسی بھی عدالت میں ٹرائل ہو، کسی سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’آپ مفروضے کی بات کر رہے ہیں کہ جب ٹرائل ہو گا تو یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے، ابھی تو ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا، جب ابھی کارروائی کا آغاز ہی نہیں ہوا تو آپ کیوں ٹرائل کے دوران سویلین کے حقوق کی بات کر رہے ہیں؟ اپنے کیس پر دلائل دیں، ہمارے پاس محدود وقت ہے۔ کل آخری ورکنگ ڈے ہے، کسی بڑے تنازعے میں نہ پڑیں، دلائل کو سادہ رکھیں تا کہ ہم کیس ختم کر سکیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کا کیس ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ ’آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی سویلینز کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کر سکتا، آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی آئین سے تجاوز نہیں کر سکتا۔‘
جسٹس عائشہ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ بہتر نہیں ہو گا کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ اگر آپ اس بات پر آمادہ ہیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلینز پر ہوتا ہے تو پھر کیا کیس ہے آپ کا؟ آپ آرمی ایکٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت نہیں کر رہے۔‘
جواب میں وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ’آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز میں ریٹائرڈ آرمی افسران بھی آتے ہیں۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ’عدلیہ کی اصطلاح کی آئینی تعریف موجود نہیں ہے، آئین اختیارات کی تقسیم کی بات کرتا ہے اور اس میں عدلیہ کے اختیارات کو الگ رکھا گیا ہے، آپ کے خیال میں عدلیہ ہے کیا؟‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’کیا کورٹ مارشل کا لفظ آرمی ایکٹ کے علاوہ کہیں استعمال ہوا، ملٹری کورٹس کے بارے میں بہت سے فیصلے ہیں، وہ دیکھنا چاہتے ہیں، جو کیس ملٹری افسران کے بارے میں نہیں ہے، اس میں انہیں کیوں لا رہے ہیں؟‘ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’میرا فوکس صرف سویلینز پر ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 199 کا اطلاق کورٹ مارشل پر نہیں ہوتا۔‘
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آرٹیکل 199 آرمی ایکٹ کے تحت سزاؤں پر لاگو ہوتا ہے، کورٹ مارشل پر نہیں۔ سویلینز کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ فورسز کو سروسز فراہم کونے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں، دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ جو مکمل طور پر سویلینز ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں۔‘
جسٹس عائشہ ملک نے نکتہ اٹھایا کہ ’ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟‘ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟‘
سلمان اکرم راجہ نے جواباً کہا کہ ’آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو، فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، کیا آپ ملٹری کورٹس میں فوجیوں کے ٹرائل پر بھی جانا چاہتے ہیں، ہم بہت سادہ لوگ ہیں ہمیں آسان الفاظ میں سمجھائیں، آپ جو باتیں کر رہے ہیں، وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔‘
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ آرٹیکل 175/ 3 کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور عدلیہ ہی چلا سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ’ہمیں یہ بتائیں کہ کیا سویلینز کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ ’ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو، بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’امریکہ میں جو سویلینز ریاست کے خلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟ فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا تھا کہ دنیا میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل ہوتا ہے، امریکی قانون ان سویلینزکے بارے میں کیا کہتا ہے، جو ریاست کے خلاف ڈٹ جائیں؟‘
وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امریکہ میں سویلنز کی غیر ریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔‘
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ’کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟‘ جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ’انڈیا میں ایسا نہیں ہوتا۔‘
چیف جسٹس نے اس موقعے پر کہا کہ ’21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر موجود ہے۔‘
اس کے ساتھ سماعت میں 45 منٹ کا وقفہ کردیا گیا، جس کے بعد بھی سلمان اکرم راجہ دلائل جاری رکھیں گے
گذشتہ سماعتوں میں کیا ہوا؟
اس سے قبل 22 جون کو فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد نو رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا اور چیف جسٹس نے سات رکنی نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔
جمعے (23 جون) کو ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہؤئے کہا تھا کہ ان کی درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے کیوں کہ انہوں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا۔
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ’من پسند افراد کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے۔‘
وکیل نے مزید کہا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہیں جن پر وہ دلائل دیں گے۔
اس سے قبل 22 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے۔‘
’دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔‘
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت 26 جون تک ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوشش کریں گے کہ اس کیس کا نتیجہ 27 جون تک نکل آئے۔
درخواست کیا تھی؟
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، قانون دان اعتراز احسن اور دیگر نے اپنی درخواستوں میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتوں کی موجودگی میں ملٹری کورٹس کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی ہے، جسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔
مزید کہا گیا کہ ’آرمی ایکٹ کے کچھ سیکشن آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں،‘ جنہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
درخواست میں اس حوالے سے بھی ڈیٹا طلب کرنے کی استدعا کی گئی ہے کہ ’ٹرائل کے دوران ملزمان کو کہاں رکھا گیا ہے۔‘
ساتھ ہی فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے بھی ملزمان کو سول حکام کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی گئی۔
اسی طرح ملٹری کورٹس کی کارروائی روکنے اور حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کے حکم کا بھی کہا گیا ہے۔
مزید کہا گیا: ’درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کی حمایت کرنا نہیں ہے۔ درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواست کے مطابق: ’فوجی عدالتوں کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ حاضر سروس ملازم ہونے کی صورت میں ہی عام شہری کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ممکن ہے۔‘
درخواست میں وزارت دفاع، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں اور نجی و قومی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات سامنے آئے تھے۔
حکومت نے ان افراد کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سرکاری بیانات کے مطابق بعض ملزمان کے مقدمات پہلے ہی فوجی عدالتوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔
قانون دان اعتزاز احسن نے بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر آئینی اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ غیرقانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں پاکستان کے آئین کے تحت نہیں لگ سکتیں، اس بارے میں حتمی فیصلہ 1999 میں ہو گیا تھا، عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا سویلین پر مقدمہ چلانے کا کوئی اختیار نہیں۔
فوجی عدالتوں کے فیصلے
ماضی میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے کئی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دیا تھا۔
جون 2020 میں پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں، جبکہ مزید ایک سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔
بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
تنقید
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ ان عام شہریوں کے مقدمات سویلین عدالتوں میں بھیجے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی کارروائی فوجی عدالتوں میں کرنا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جس کی توثیق پاکستان نے بھی کی ہے۔ یہ قانون ملزمان کو شفاف اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق دیتا ہے۔
ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیس نے 33 مشتبہ افراد کو فوج کے حوالے کیا ہے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مخصوص صورتِ حال کی بھی وضاحت کی گئی ہے جن میں بغاوت، جاسوسی اور حساس مقامات کی تصاویر بنانا شامل ہیں۔