چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سول کورٹ ہو یا فوجی عدالت ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے لیکن اس وقت پاکستان میں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے۔ ’وکلا کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ ریمارکس جمعرات کو عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نو رکنی بینچ میں سینیئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل تھے۔
سماعت کے دوران سینیئر وکیل عبدالطیف کھوسہ نے وکیلوں کے گھروں پر ہونے والے مبینہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’میرے گھر پر حملہ ہوا ہے، جبکہ عزیر بھنڈاری کو چند گھنٹے کے لیے غائب کیا گیا۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز حکم امتناع سے درست نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے وکلا اور صحافیوں کی گرفتاریوں اور ان کے گھروں پر چھاپوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو رہا کر دینا چاہیے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے خواتین سمیت تمام گرفتار افراد کے درست اعداد و شمار اور تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا: ’بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونا چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے کہا چاہے سول کورٹ ہو یا فوجی عدالت ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے جبکہ یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’لطیف کھوسہ کے گھر پر حملہ ہوا، صحافی آزاد نہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتار کیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟ خواتین اور کو بچوں کو کہاں رکھا گیا ہے؟
’لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی، ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کی گئی۔ یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہے گا، اگر بنچ کا ایک بھی رکن نہ ہوا تو سماعت نہیں ہو سکے گی۔ امید ہے ملٹری ٹرائل ابھی تک شروع نہیں ہوا ہو گا۔‘
اس سے قبل سپریم کورٹ میں عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر جمعرات کو سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ آج کے نو رکنی بینچ کو بینچ تصور نہیں کرتے، جس کے بعد کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا اور سماعت کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر آ کر سپریم کورٹ کے قوانین پڑھ کر سنانے کا کہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق تین رکنی کمیٹی سماعت کے بارے میں فیصلہ کرے گی جسے قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بینچ نے روک دیا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کو جولائی تک ملتوی کیا گیا، اس ایکٹ سے متعلق رائے نہیں دوں گا کیونکہ اس بینچ کا حصہ نہیں ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’تعجب ہوا کہ کل رات آٹھ بجے کاز لسٹ میں میرا نام آیا۔ مجھے دکھ، صدمہ اور تعجب ہوا کہ رجسٹرار نے 15 مارچ کا میرا فیصلہ نظرانداز کرنے کا سرکولر جاری کیا۔ اس سے قبل ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا۔ میں نے اپنے فیصلےمیں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین میں رولز بنائے جائیں۔ میرے فیصلے کو واپس لینے کا حکم جاری ہوا کیا یہ سپریم کورٹ کی عزت ہے؟‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا: ’میرے نوٹ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی۔ پھر سپریم کورٹ نے چھ رکنی بینچ بنا کر سرکولر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا۔ اس بینچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میرے دوست یقیناً مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔‘
’پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کا فیصلہ ہونے سے قبل سپریم کورٹ کوئی کیس نہیں سن سکتی‘
چند دنوں سے مسلسل چیمبر ورک کرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینچز کی تشکیل سے متعلق ایک قانون بنایا گیا۔ ’کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ میں حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پر بینچ میں بیٹھوں۔ میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جا سکتا ہے معطل نہیں کیا جا سکتا۔
’حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا اور مجھے اس کا سربراہ بنایا گیا، 19 مئی کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے انکوائری کمیشن کو کام سے روک دیا۔ میں واضح کر دوں کہ کسی فیصلے کی مخالفت نہیں کر رہا، صرف طریقہ کار کی بات کر رہا ہوں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’آج کے نو رکنی بینچ کو بینچ تصور نہیں کرتا۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہونے تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھوں گا۔ سب سے معزرت چاہتا ہوں کہ ججز کو زحمت دی۔‘
جس کے بعد جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ وہ بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ’پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کا فیصلہ ہونا چاہیے، یہ فیصلہ ہونے سے قبل سپریم کورٹ کوئی کیس نہیں سن سکتی۔‘
قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا: ’میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں،‘ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’اگر وہ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے؟‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے: ’ممکن ہے قاضی صاحب کو اطلاع نہ ہو کہ حکومت نے قانون پر مشاورت کے لیے وقت مانگا ہوا ہے۔ دو ججز نے سماعت نہ کرنے کا کہا ہے، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ اس کیس کا کچھ اور راستہ نکال لیں گے، دو ججز نے سماعت نہیں کرنی تو ہم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ ’گھر کے تحفظ کے لیے کیس سن لیں، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔‘
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ان درخواستوں کا کوئی اور حل نکالتے ہیں۔‘
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت ہم نو ججز ہیں۔ ہم فیصلہ کر دیتے ہیں اس کیس میں تو کل کو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا وہ ان کی بہت قدر کرتے ہیں۔ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کر دوں، یہ کسی کا گھر نہیں ہے، سپریم کورٹ ہے۔‘
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے بھی یہ بینچ اپنے آئین کے تحت اور حلف کے مطابق بنایا۔‘
بعد ازاں بینچ اٹھ کر چلا گیا۔
سات رکنی بینچ کا سماعت کا دوبارہ آغاز
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے بغیر نیا سات رکنی بینچ تشکیل دیا گیا جس نے کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی نے ان کے بیٹھنے پر اعتراض اٹھانا ہے تو بتا دے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اگر انہیں بھی اعتراض ہے تو وہ کیس نہیں سنیں گے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں، اگر کسی کو ان کے بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتا دیں، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو ان کی شمولیت پر اعتراض نہیں ہے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہو چکا ہے، قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا نو مئی واقعات کے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے کور کمانڈر اجلاس کا اعلامیہ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
لطیف کھوسہ نے کہا سویلینز کا ٹرائل کرنل یا بریگیڈیئر کرے گا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو مقدمات بنائے گئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کو پہلے ہی سے حاصل ہے جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان کا بھی یہی موقف ہے کہ یہ کیسز فوجی عدالتوں کے بجائے انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے گرفتار افراد اور ان پر درج مقدمات کی تفصیل سے متعلق استفسار کیا۔ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ملک بھر سے 10 مئی کو چار ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا ملٹری کورٹس سے متعلق قانون چیلنج ہو سکتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں کیونکہ ان کے پاس کوئی کتاب نہیں۔
درخواست کیا تھی؟
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی درخواست میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتوں کی موجودگی میں ملٹری کورٹس کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی ہے، جسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔
مزید کہا گیا کہ ’آرمی ایکٹ کے کچھ سیکشن آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں،‘ جنہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
درخواست میں اس حوالے سے بھی ڈیٹا طلب کرنے کی استدعا کی گئی ہے کہ ’ٹرائل کے دوران ملزمان کو کہاں رکھا گیا ہے۔‘ ساتھ ہی فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے بھی ملزمان کو سول حکام کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی گئی۔
اسی طرح ملٹری کورٹس کی کارروائی روکنے اور حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کے حکم کا بھی کہا گیا ہے۔
مزید کہا گیا: ’درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کی حمایت کرنا نہیں ہے۔ درخواست گزار کا اس مقدمے میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔‘
درخواست کے مطابق: ’فوجی عدالتوں کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ حاضر سروس ملازم ہونے کی صورت میں ہی عام شہری کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ممکن ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواست میں وزارت دفاع، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ نو مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی نیب کے ہاتھوں مبینہ کرپشن کیس میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں اور نجی و قومی املاک کی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات سامنے آئے تھے۔
حکومت نے ان افراد کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سرکاری بیانات کے مطابق بعض ملزمان کے مقدمات پہلے ہی فوجی عدالتوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔
اس سے قبل قانون دان اعتزاز احسن نے بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اعتزاز احسن کے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر آئینی اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ غیرقانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں پاکستان کے آئین کے تحت نہیں لگ سکتیں، اس بارے میں حتمی فیصلہ 1999 میں ہو گیا تھا، عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کا سویلین پر مقدمہ چلانے کا کوئی اختیار نہیں۔
فوجی عدالتوں کے فیصلے
ماضی میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے کئی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دیا تھا۔
جون 2020 میں پشاور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں، جبکہ مزید ایک سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔
بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
تنقید
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ ان عام شہریوں کے مقدمات سویلین عدالتوں میں بھیجے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی کارروائی فوجی عدالتوں میں کرنا انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جس کی توثیق پاکستان نے بھی کی ہے۔ یہ قانون ملزمان کو شفاف اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق دیتا ہے۔
ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیس نے 33 مشتبہ افراد کو فوج کے حوالے کیا ہے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مخصوص صورتِ حال کی بھی وضاحت کی گئی ہے جن میں بغاوت، جاسوسی اور حساس مقامات کی تصاویر بنانا شامل ہیں۔