ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے آبدوز میں سیاحتی مشن پر جانے والے بدقست مسافروں میں شامل 19 سالہ سلیمان داؤد کی والدہ نے بتایا ہے کہ کس طرح ان کے بیٹے عالمی ریکارڈ کو توڑنے کے لیے اپنا روبک کیوب ساتھ لے کر گئے تھے اور اس منظر کو ہمیشہ کے لیے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا چاہتے تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سلیمان کی والدہ کرسٹین داؤد نے بتایا کہ سلیمان داؤد اپنا روبک کیوب اپنے ساتھ لے کر گئے تھے کیونکہ وہ عالمی ریکارڈ توڑنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے گنیز ورلڈ ریکارڈ میں درخواست دے رکھی تھی اور اس لمحے کو قید کرنے کے لیے ان کے والد ایک کیمرہ بھی لے کر آئے تھے۔
جنوب مشرقی کینیڈا کی سمندری سرحد پر غرقاب ہو جانے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کا نظارہ کروانے والی سیاحتی آبدوز میں سوار پانچ افراد میں دو پاکستانی بھی شامل تھے، جن میں سے ایک شہزادہ داؤد اور دوسرے ان کے صاحبزادے سلیمان داؤد تھے۔
تین دیگر افراد میں اوشین گیٹ کے 61 سالہ سی ای او اور ٹائی ٹن کے مالک سٹاکٹن رش، 58 سالہ برطانوی تاجر ہیمش ہارڈنگ اور فرانسیسی بحریہ کے سابق غوطہ خور 77 سالہ پال ہنری نارجیولیٹ بھی شامل تھے۔
ٹائی ٹن آبدوز اوشن گیٹ نامی کمپنی کی ملکیت تھی، جو خواہش مند افراد کو ٹائی ٹینک کا ملبہ دکھانے کی مہمات ترتیب دیتی تھی۔ 22 جون کو اس آبدوز کی تباہی اور اس میں سوار افراد کی موت کا اعلان کردیا گیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرسٹین نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن کرونا کی وبا کی وجہ سے یہ سفر منسوخ کر دیا گیا۔
بقول کرسٹین: ’پھر میں پیچھے ہٹ گئی اور سلیمان کو جگہ دے دی، کیونکہ وہ واقعی جانا چاہتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرسٹین داؤد نے بتایا کہ سلیمان کو روبک کیوب اس قدر پسند تھا کہ وہ اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور 12 سیکنڈ میں اس معمے کو حل کر کے دیکھنے والوں کو حیران کر دیتے تھے۔
بقول کرسٹین، سلیمان نے کہا تھا: ’میں ٹائی ٹینک میں سمندر کے نیچے 3700 میٹر گہرائی میں روبک کیوب کو حل کرنے جا رہا ہوں۔‘
سلیمان برطانیہ میں گلاسگو کی یونیورسٹی آف سٹرتھ کلائیڈ میں زیر تعلیم تھے۔
کرسٹین داؤد نے بتایا کہ 18 جون کو فادرز ڈے کے موقعے پر جب ان کے شوہر اور بیٹے ٹائی ٹن آبدوز میں سوار ہونے لگے تو پولر پرنس جہاز پر وہ اور ان کی 17 سالہ بیٹی علینہ بھی موجود تھی۔ پولر پرنس ایک امدادی جہاز ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں ان کے لیے واقعی خوش تھی کیونکہ وہ دونوں بہت طویل عرصے سے یہ کام کرنا چاہتے تھے۔‘
کرسٹین داؤد نے بتایا کہ ان کے شوہر ایک ایڈونچر پسند انسان تھے جو اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔
’وہ بچوں کی طرح پرجوش ہو جاتے تھے۔‘
کرسٹین داؤد نے وہ لمحات بھی شیئر کیے جب 96 گھنٹے گزر گئے اور امید کم ہونے لگی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کی بیٹی سلیمان کے اعزاز میں روبک کیوب سیکھنے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی وہ اپنے شوہر کے کام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
شہزادہ داؤد کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا، جو اینگرو نامی کھاد بنانے والے ادارے کے مالک تھے اور برطانیہ کے پیپلز میگزین کے مطابق برطانوی بادشاہ چارلس کے ذاتی دوستوں میں سے بھی تھے۔ شہزادہ داؤد بادشاہ چارلس کے بین الاقوامی خیراتی ادارے ’پرنس ٹرسٹ انٹرنیشل‘ کے بورڈ کے رکن بھی تھے اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔