عید الضحیٰ کے بعد تقریباً ہر گھر میں گوشت فریزرر میں پڑا رہتا ہے اور کئی دنوں تک اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے زرعی ادارے کی گائیڈلائنز کے مطابق فریزرر میں رکھے گئے گوشت کو تین سے چار مہینوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر بجلی کا مسئلہ نہ ہو اور فریزرر بار بار نہیں کھولا جاتا تو اس کو چھ مہینوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں ایسی صورت حال کی جس میں گھر میں گوشت بھی ہو، فریزر بھی موجود ہو لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ سے گوشت خراب ہونے کا خدشہ ہو۔
خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے گھنٹوں تک بجلی غائب رہتی ہے جس سے گوشت خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن کیا فریزر کے علاوہ ایسا کوئی طریقہ موجود ہے جس سے گوشت کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جا سکے۔
تحقیقی مقالوں میں لکھا گیا ہے کہ فریزر کا استعمال امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں 19 ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا ہے، اور اس سے پہلے گوشت کو روایتی طریقوں سے محفوظ کیا جاتا تھا جس سے گوشت کئی مہینوں تک خراب ہونے سے بچ جاتا تھا۔
ہم تحقیقی مقالوں کا مطالعہ کرکے اور ماہرین کے ساتھ بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں بغیر بجلی کے گوشت کو کیسے دیر تک قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔
’کیورنگ‘ یا نمک لگا کر خشک کرنا
امریکہ کے کارنیور کلب، جو گوشت کے بارے میں تحقیقی مضامین شائع کرتے ہے، کے ایک مضمون کے مطابق گوشت کو نمک لگا کر محفوظ کرنا تقریباً پانچ ہزار سال پرانا طریقہ ہے۔
اس طریقے میں گوشت کو نمک لگا کر سورج کی روشنی میں خشک کیا جاتا ہے اور اس کو کئی مہینوں تک استعمال کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے فوڈ سیفٹی اینڈ ہلال فوڈ اتھارٹی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالستار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا گوشت کو نمک لگا کر خشک کرنا صدیوں پرانا طریقہ ہے، کیونکہ نمک کی خاصیت ہے کہ جراثیم کو مار دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’گوشت پر نمک چھڑک کر اس کو سورج کی روشنی میں رکھا جاتا ہے تاکہ دھوپ کی وجہ سے، گوشت کے اندر نمی کو ختم کیا جا سکے کیونکہ گوشت میں جب پانی موجود ہوتا ہے، تو اس میں جراثیم کی افزائش کا خطرہ موجود رہتا ہے۔‘
تاہم ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق ابھی جو موسم ہے، اس میں نمی کا تناسب زیادہ ہے تو اس میں گوشت کو نمک لگا کر دھوپ میں رکھنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، تاہم پھر بھی باقاعدہ سورج کی روشنی میں اگر رکھا جائے تو گوشت کو خشک کیا جا سکتا ہے۔
کارنیور کلب کے مطابق تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح میں سومیرین لوگ گوشت کو سیسمی تیل اور نمک میں رکھ کر محفوظ کرتے تھے جبکہ نو سو قبل مسیح میں یونانیوں نے صرف نمک میں گوشت کو محفوط رکھنا شروع کیا تھا۔
اسی طرح دو سو قبل میسح میں رومنز نے یونیانیوں سے نمک کے ذریعے گوشت کو محفوظ کرنے کا طریقہ سیکھا تھا، اور اسی طریقے سے گوشت کو محفوظ کرتے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ نمک ک ساتھ دیگر اجزا جیسا کے نائٹریٹ اور دیگر کیمیکل کا استعمال شروع ہوگیا جس سے گوشت محفوظ بھی ہوتا تھا اور اس کا ذائقہ بھی اچھا رہتا تھا۔
ڈاکٹر ستار کے مطابق اس کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ گوشت پر نمک چھڑکنے کے بعد اس کو ایک تار یا کسی دوسرے چیز میں لٹکا کر دھوپ میں رکھا جاتا ہے، جس سے گوشت خشک ہوسکے اور خشک ہونے کے بعد اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سموکنگ
کیٹس فورک نامی ویب سائٹ کے مطابق سموک کے ذریعے گوشت کو خشک کر کے اس کو محفوظ کرنا ہوتا ہے اور یہ طریقہ 16 ویں صدی میں مشہور ہوا تھا جس کو رومنز نے استعمال کیا تھا۔
اسی ادارے کے مطابق یہ طریقہ زیادہ تر رومن افواج کے لیے فوڈ سپلائی میں اس وقت استعمال کیا جاتا تھا، جب تازہ گوشت ملنا مشکل تھا۔ ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق یہ طریقہ بھی گوشت کو خشک کرنا ہی ہے لیکن اس کو لکڑی یا کوئلے کے دھویں میں گوشت کو خشک کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طریقہ کار سے پہلے بھی گوشت پر نمک چھڑکا جاتا ہے اور اس کے بعد آگ یا کوئلے کے دھویں میں گوشت کو خشک کیا جاتا ہے۔
کیٹس فورک ادارے کے مطابق اس طریقہ کار میں گوشت کو 75 سے 120 فارن ہائٹ درجہ حرارت پر سموک کے ذریعے خشک کیا جاتا ہے اور سموکنگ سے پہلے گوشت کو باقاعدہ نمک لگانا لازمی ہے۔
اسی طریقہ کار کے ذریعے بھی گوشت سے نمی خشک کی جاتی ہے، تاکہ اس نمی میں جراثیم کی افزائش نہ ہو سکے اور اس کو بعد میں ایک سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ دور میں ایک انگیٹھی یا تندور میں گوشت کو طریقے سے کسی سیخ یا نوک دار چیز میں پرو کر رکھا جا سکتا ہے تاکہ گوشت سموک کے ذریعے خشک ہوسکے یا گوشت کو کسی سیخ میں رکھ کر چمنی، جہاں سے دھواں نکلتا ہوں، کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق: ’دھوپ یا سموک کے ذریعے گوشت محفوظ رکھنے میں احتیاط لازمی ہے، کیونکہ درجہ حرارت میں اونچ نیچ کی وجہ سے گوشت خشک تو ہوسکتا ہے، لیکن اس میں فوڈ پوائزننگ بھی ہوسکتی ہے اگر گوشت میں موجود نمی باقاعدہ ختم نہیں ہوتی۔‘
پکلنگ یا اچار بنانا
اچار کا نام تو سب نے سنا ہوگا، لیکن گوشت کو اچار کی طرز بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ کیٹس فورک نامی ویب سائٹ کے مطابق اس طریقہ کار میں گوشت کی بوٹیاں کاٹ کر اس کو سرکے یا چینی کے پانی میں رکھ کر گوشت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
اسی ادارے کے مطابق رومن تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ گوشت کو شہد کے محلول میں رکھا کر محفوظ کیا گیا تھا اور کئی سالوں تک وہ گوشت قابل استعمال تھا۔ تاہم اس طریقہ کار میں گوشت کو پہلے پکایا جاتا ہے اور اس کے بعد سرکے یا چینی کے محلول میں رکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہد کے سلوشن میں گوشت کو محفوظ کرنے کا رواج شمالی افریقہ، وسطی ایشیا میں صدیوں سے کیا جاتا تھا، تاہم یہ طریقہ ابتدا میں سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن بعد میں ایسے شواہد پائے گئے کہ شہد کے محلول میں بھی گوشت کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
ڈی ہائڈریشن
گوشت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک طریقہ کار ڈی ہائڈریشن بھی ہے، تاہم اس طریقے سے گوشت کو محفوظ بنانے کے لیے ڈی ہائڈریشن مشین کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالستار کے مطابق ڈی ہاڈریشن مشین میں درجہ حرارت کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس میں گوشت کو رکھ کر ڈی ہائڈریڈ یعنی اس سے پانی کو نکال کر گوشت کو مکمل خشک کیا جاتا ہے۔
تاہم ڈاکٹر ستار کے مطابق: ’یہ عام طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے مہارت سمیت مشین کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو عام طور پر ہمارے گھروں میں موجود نہیں ہوتی۔‘
برف کے ذریعے
خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ ہلال فوڈ اتھارٹی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر کے مطابق باقی جتنے بھی طریقے ہیں، وہ شاید تھوڑے مشکل ہوں لیکن برف کے ذریعے گوشت کو ٹھنڈا رکھنا آسان طریقہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہے، تو وہ بازار سے برف خرید کر اس میں گوشت کو رکھیں تاکہ وہ ٹھنڈا رہے اور جراثیم کو افزائش کا موقع نہ مل سکے لیکن ان سب طریقوں سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ جانور ذبح بھی درست طریقے سے ہوا ہو اور اس کے جسم سے خون مکمل طور پر نکل جائے۔
ڈاکٹر عبدالستار نے بتایا، ’جانور کا خون جراثیم کی افزائش کے لیے بہترین جگہ ہے اور اس میں وہ پلتے ہیں، تو جانور کو ذبح کرنے کے دوران یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی چار بڑی رگیں کاٹ دی گئی ہوں جس میں ایک سانس، ایک خوراک اور دو خون کی شامل ہیں، تاکہ جسم سے خون مکمل طور پر نکل جائے۔‘
نوٹ: یہ تحریر محظ قارئین کی معلومات کے لیے ہے۔