وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ملک کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک پر گذشتہ روز مزید تین سال کی توسیع دے دی ہے، جس کا اطلاق 29 نومبر سے ہو گا یعنی پہلی مدت ختم ہونے کے بعد توسیع کی مدت شروع ہو گی۔
جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم نے یہ فیصلہ ملک اور خطے میں جاری امن کی کوششوں کے تسلسل کے لیے کیا۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع آخر کیوں ضروری تھی؟
جب انڈپینڈنٹ اردو نے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان سے پوچھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے ایک سوال یہ ابھر رہا ہے کہ کیا فوج کے پاس دوسرے کوئی جنرل موجود نہیں جو پالیسیوں کو آگے بڑھا سکیں یا تسلسل کو برقرار رکھ سکیں؟ انہوں نے کہا توسیع کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ فوج میں قابل جنرل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا جنرل ایوب اور جنرل ضیا 10، 10 سال آرمی چیف رہے، جنرل مشرف نو سال اور جنرل اشفاق پرویز کیانی چھ سال آرمی چیف رہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ فوج بانجھ ہو گئی ہے اور مزید آرمی چیف پیدا نہیں ہو سکتے۔ ’بات یہ ہے پالیسیوں کے تسلسل کے لیے ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں۔‘
میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے کہا جب بھی کمانڈ تبدیل ہوتی ہے تو پہلے چار ماہ جمود کی سی کیفیت آ جاتی ہے، جس تسلسل سے نظام چل رہا ہوتا ہے اس میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے اور ’پاکستان کے موجودہ حالات کسی بھی جمود کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جس نہج پر بھارت حالات کو لے آیا ہے ان حالات میں چار ماہ انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس سوال پر کہ وہ اس توسیع کو کیسے دیکھتے ہیں؟ جواب دیا کہ یہ بروقت فیصلہ ہے کیونکہ جنگ کے دوران گھوڑے تبدیل نہیں کیے جاتے۔
انہوں نے کہا: ’پاکستان کو جن چیلنجز کا آج سامنے ہے وہ پہلے کبھی بھی نہیں تھا۔ افغان سرحد پر باڑ نصب ہو رہی ہے، سابق فاٹا میں فوج کا سکیورٹی کے اعتبار سے بنیادی کردار ہے۔ ملک کے اندرونی سکیورٹی معاملات اور آپریشن ردالفساد جو جنرل قمر جاوید باجوہ نے شروع کروایا تھا وہ اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔ انہوں نے مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف اقدامات کیے۔ ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تسلسل کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا ملک کے اندرونی سیاسی حالات میں بھی جو استحکام چاہیے اس میں بھی جنرل قمر جاوید اور آئی ایس آئی کا بنیادی کردار ہے۔ نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ آپ نے کہا کہ ملک کی اندرونی سیاست میں فوج کا کردار ہے تو فوج کے حلف کے مطابق تو ان کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوتا؟ انہوں نے جواب دیا: ’یقیناً فوج کا سیاست میں کردار نہیں ہوتا لیکن ملکی سلامتی میں فوج کا کردار ضرور ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’اگر فوج پر الزام تراشیاں کی جائیں گی تو یہ فوج کو اشتعال دلاتی ہیں کیونکہ یہ فوج کا کام نہیں، ان کا فوکس ملکی سلامتی ہوتا ہے۔‘
باجوہ ڈاکٹرائن کیا ہے؟
یہ کوئی دستاویز نہیں ہے، لیکن ستمبر 2017 میں جنرل باجوہ نے یوم دفاع کے موقع پر اس کے نکات گنوائے تھے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے اپنے سارے وعدے پورے کر چکا ہے لہذا ’اب مزید نو مور۔ پاکستان کسی کی مزید ڈکٹیشن نہیں لے گا۔‘
میجر جنرل اعجاز اعوان نے بتایا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ امریکی دھمکیوں میں مزید نہیں آئیں گے، سارے فیصلے پاکستان کے مفاد میں کریں گے۔
ڈاکٹرائن کے تیسرے نکتے میں کہا گیا تھا پاکستان امریکی فوجی امداد اور فوجی ٹریننگ معاونت کے بغیر بھی گزارا کر سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا پاکستان اپنے سفارتی تعلقات کسی ملک کے مشورے پر نہیں بلکہ قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کرے گا۔ پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کے فیصلے بھی حکومتی فیصلوں کو سامنے رکھ کر کیے جائیں گے۔
لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’اصولی طور پر توسیع درست نہیں ہوتی لیکن جو پاکستان کے معروضی حالات ہیں اس کے تناظر میں یہ فیصلہ درست ہے کیونکہ نئے چیف کو سیٹل ہونے میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے جو پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے اس فیصلے پر مخنتصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع متوقع تھی اور یہ تو ہونا ہی تھا، جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا: ’چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس پوزیشن کے لیے دوسروں کی بھی باری آنی چاہیے تھی۔‘
دفاعی امور کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا آرمی چیف کی توسیع پر کہنا تھا پہلے 14 اگست کو اس فیصلے کا اعلان کیا جانا تھا لیکن حالات کی وجہ سے 19 اگست کو اعلان کیا گیا۔
صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا منتخب حکومت نے جب جنرل اشفاق پرویز کیانی کو توسیع دی تھی تو نوٹیفیکیشن وزارت دفاع سے جاری ہوا تھا لیکن اس بار نوٹیفیکیشن وزیر اعظم آفس نے جاری کیا ہے۔