خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں چھ دن سے کشیدہ حالات کے بعد علاقہ عمائدین اور ضلعی انتظامیہ کے مابین کامیاب جرگے کے بعد فریقین نے فائر بندی کا اعلان کر دیا ہے۔
فائربندی کی تصدیق اپر کرم کے اسسٹنٹ کمشنر حفیظ اللہ نے کی جو خود بھی جرگے کا حصہ تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر حفیظ اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پانچوں مقامات جہاں پر فریقین کے مابین جھڑپیں جاری تھیں، فائربندی کے بعد جھڑپیں رک گئی ہیں۔
ان جھڑپوں میں اب تک فریقین کی جانب سے 10 افراد جان سے گئے ہیں جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’یہ چھ دن بہت سخت رہے لیکن جرگہ ارکان، ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کی کوششوں سے ڈپٹی کمشنر کوہاٹ کی سربراہی میں آئے ہوئے ہنگو اور کوہاٹ کے جرگہ عمائدین نے دونوں فریقین کو فائر بندی پر راضی کر دیا۔‘
حفیظ اللہ کے مطابق جرگہ میں امن معاہدہ یا ’تیگہ ’(پشتون روایت کے مطابق کسی بھی مسئلے میں جب جرگہ امن معاہدہ کر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک وقت دیتے ہیں) ہو گیا اور ایک سال یہ معاہدہ نافذالعمل ہو گا۔‘
فریقین گذشتہ چھ دنوں سے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن تھے اور حفیظ اللہ کے مطابق تمام مورچے خالی کرا کر اب پاک فوج اور پولیس نے سنبھال لیے ہیں۔
معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟
امن معاہدے پر دونوں فریقین کے مشران نے دستخط کر دیے ہیں جس میں کہا گیا ہے:
- معاہدہ ایک سال کے لیے نافذالعمل ہو گا
- اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق امن معاہدے کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی کرنے پر فریق سے 12 کروڑ روپے بطور جرمانہ لیا جائے گا
- تمام سڑکیں اور راستے کھلے رہیں گے
- کوئی بھی شرپسند جو امن کو خراب کریں گے، کی نشاندہی ضلعی انتظامیہ کو کی جائے گی
- اگر کسی نے ملزم کا ساتھ دیا تو وہ بھی ملزم تصور کیا جائے گا
تنازع کیا تھا؟
ضلع کرم میں شاملاتی زمین کے تنازعات نئے نہیں ہیں بلکہ بعض تنازعات صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک زمینی تنازعے پر چھ دن پہلے بوشہرہ اور ڈنڈار قبائل کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔
ان جھڑپوں کی وجہ مقامی صحافی ارشاد حسین طوری کے مطابق یہ تھی کہ شاملاتی زمین پر ایک قبیلے کے افراد نے کچھ تعمیرات شروع کیں تو دوسرے قبیلے کے افراد نے ان کو روکنے کی کوشش کی اور یوں بات مسلح جھڑپوں تک پہنچ گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چھ دن پہلے بوشہرہ اور ڈنڈار کے قبائل کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں اسسٹنٹ کمشنر اپر کرم حفیظ اللہ کے مطابق سات افراد جان سے گئے تھے، اور 19 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ لیکن پچھلے ہفتے یہ جھڑپیں تب رک گئی تھیں جب ضلعی انتظامیہ او سکیورٹی فورسز نے جرگے کے ذریعے فریقین کو راضی کیا تھا اور ان سے مورچے خالی کروائے تھے۔
تاہم اس کے بعد مجلس وحدت المسلمین کے رہنماؤں نے پیر کے روز پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اپر کرم کے علاقے بوشہرہ اور ڈنڈار میں فائر بندی کے بعد کچھ شرپسندوں نے لوئر کرم کے بالش خیل اور میروکس میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئیں۔
اسی طرح لوئر کرم میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد اپر کرم کے علاقے پاڑہ چنار کے پیواڑ اور تری منگل کے علاقوں میں بھی دونوں قبائل کے مابین جھڑپیں شروع ہوئی۔
پیواڑ اور تری منگل وہی علاقے ہیں جہاں پر کچھ عرصہ پہلے ایک سکول کے اندر چھ اساتذہ سمیت سات افراد کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔
پیواڑ اور تری منگل کے قبائل کے مابین بھی زمینی تنازع چل رہا ہے جو صدیوں سے آرہا ہے، اور وقتاً فوقتاً اس علاقے میں موجود فریقین کے مابین جھڑپیں دیکھی گئی ہیں۔
کہاں کہاں پر جھڑپیں ہوئی ہیں؟
مقامی صحافی نبی جان اورکزئی، اس وقت ضلع کرم کے علاقے صدہ میں موجود ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو گذشتہ روز فون پر حالات سے آگاہ کیا۔ ان کے مطابق بوشہرہ اور ڈنڈار کے علاقوں کے بعد جھڑپیں اپر کرم کے علاقوں پیواڑ اور تری منگل تک پھیل گئی تھیں اور لوئر کرم کے علاقوں میرو کس اور بالش خیل میں موجود قبائل کے مابین جھڑپیں اس کے بعد شروع ہوئیں۔
نبی جان نے بتایا کہ فریقین ایک دوسرے پر پرتشدد واقعات کا الزام لگاتے ہیں اور پولیس سے ان واقعات میں ملوث ملزموں کو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ روز وہ صدہ کے بازار میں موجود تھے کہ مارٹر گولہ فائر کیا گیا جو ان سے تقریباً تین سو میٹر پر ہم سے دور جا کر گرا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم بچ گئے لیکن اس کے بعد سے تمام سرکاری دفتار بشمول تعلیمی ادارے، پاسپورٹ دفتر، نادرا دفتر، نجی تعلیمی اور بازار بند پڑے ہیں۔‘
نبی جان نے بتایا، ’ضلعے بھر میں انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا تھا جو ابھی تک بند ہے۔ تعلیمی ادارے بھی بند ہیں جبکہ تمام سرکاری دفاتر بھی بند کیے گئے ہیں جبکہ علاقے میں خوف کی فضا ہے اور دونوں فریقین کے مشران کی جانب سے حالات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔‘
اسی طرح اپر کرم کے اسسٹنٹ کمشنر حفیظ اللہ کے مطابق بوغا کے اور بادامہ کے قبائل کے مابین بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔
اس کے علاوہ مقبل اور کونج علیزئی میں بھی فریقین کے مابین جھڑپیں ہوئی تھیں، اور اب تمام مقامات پر فائربندی کا اعلان کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے ایک پریس ریلیز کے مطابق ضلع کرم میں آٹھ مقامات پر شاملاتی زمین پر تنازعات تقسیم ہند کے وقت سے موجود ہیں اور اس کے حل کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا گیا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق کمیشن نے متنازع اراضی کے دو دورے بھی کر چکے ہیں اور تیسرا دورہ اب شیڈول ہے جو جلد کیا جائے گا تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔