خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی ضلع کرم میں گذشتہ چار دنوں سے امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر منگل کو ضلع بھر میں مزید فوج اور ایف سی نفری تعینات کرنے کے لیے درخواست دے دی۔
صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے میڈیا کو جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے یہ درخواست آئین کی دفعہ 245 کے تحت ’ایڈ آف سول پاور‘ کے تحت دی گئی ہے اور وفاقی حکومت مزید نفری کی منظوری دے گی۔
پریس ریلیز کے مطابق بعض شرپسند عناصر سوشل میڈیا پر ضلعے میں زمینی تنازعات کو فرقہ واریت کا رنگ دے رہے ہیں اور ایسے شرپسند افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں دو قبائل کے درمیان زمینی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے جس کے بعد علاقہ مکینوں کو خوراک کی فراہمی سمیت دیگر مشکلات درپیش ہیں۔
تنازع کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپیں گذشتہ چار دنوں سے جاری ہیں، جس میں ضلعی انتطامیہ کے مطابق بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی ہو رہا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر اپر کرم حفیظ اللہ کے مطابق اب تک جھڑپوں میں نو افراد جان سے گئے ہیں جبکہ 30 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
مقامی صحافیوں کے مطابق لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ مرکزی شاہ راہ کی بندش کے باعث آمد و رفت میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
یہ تنازع کیسے شروع ہوا؟
ضلع کرم میں شاملاتی زمین کے تنازعات نئے نہیں ہیں بلکہ بعض تنازعات تو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک زمینی تنازعے پر چار دن پہلے بوشہرہ اور ڈنڈار کے قبائل کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔
ان جھڑپوں کی وجہ مقامی صحافی ارشاد حسین طوری کے مطابق یہ تھی کہ شاملاتی زمین پر ایک قبیلے کے افراد نے کچھ تعمیرات شروع کیں تو دوسرے قبیلے کے افراد نے ان کو روکنے کی کوشش کی اور یوں بات مسلح جھڑپوں تک پہنچ گئی۔
چار دن پہلے بوشہرہ اور ڈنڈار کے قبائل کے مابین ہونے والے جھڑپوں میں اسسٹنٹ کمشنر اپر کرم حفیظ اللہ کے مطابق چار افراد جان سے گئے تھے، اور 19 کے قریب زخمی ہوئے تھے لیکن پچھلے ہفتے یہ جھڑپیں تب رک گئیں تھیں، جب ضلعی انتظامیہ او سکیورٹی فورسز نے جرگے کے ذریعے دونوں فریقین کو راضی کیا تھا اور ان سے مورچے خالی کروائے تھے۔
تاہم اس کے بعد مجلس وحدت المسلمین کے رہنماؤں نے گذشتہ روز(پیر) کو پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اپر کرم کے علاقے بوشہرہ اور ڈنڈار میں فائر بندی کے بعد کچھ شرپسندوں نے لوئر کرم کے بالش خیل اور میروکس میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئیں۔
اسی طرح لوئر کرم میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد اپر کرم کے علاقے پاڑہ چنار کے پیواڑ اور تری منگل کے علاقوں میں بھی دونوں قبائل کے مابین جھڑپیں شروع ہوئی۔
پیواڑ اور تری منگل وہی علاقے ہیں جہاں پر کچھ عرصہ پہلے ایک سکول کے اندر چھ اساتذہ سمیت سات افراد کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔
پیواڑ اور تری منگل کے قبائل کے مابین بھی زمینی تنازع چل رہا ہے جو صدیوں سے آرہا ہے، اور وقتاً فوقتاً اس علاقے میں موجود دونوں فریقین کے مابین جھڑپیں دیکھی گئی ہیں۔
کہاں کہاں پر جھڑپیں جاری ہیں؟
مقامی صحافی نبی جان اورکزئی جو اس وقت ضلع کرم کے علاقے صدہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر حالات سے آگاہ کیا۔ ان کے مطابق بوشہرہ اور ڈنڈار کے علاقوں کے بعد جھڑپیں اپر کرم کے علاقوں پیواڑ اور تری منگل تک پھیل گئی ہیں اور لوئر کرم کے علاقوں میرو کس اور بالش خیل میں موجود قبائل کے مابین جھڑپیں اس کے بعد شروع ہوئیں۔
نبی جان نے بتایا کہ فریقین ایک دوسرے پر پرتشدد واقعات کا الزام لگاتے ہیں اور پولیس سے ان واقعات میں ملوث ملزموں کو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ روز وہ صدہ کے بازار میں موجود تھے کہ مارٹر گولہ فائر کیا گیا جو ان سے تقریباً تین سو میٹر پر ہم سے دور جا کر گرا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہم بچ گئے لیکن اس کے بعد سے تمام سرکاری دفتار بشمول تعلیمی ادارے، پاسپورٹ دفتر، نادرا دفتر، نجی تعلیمی اور بازار بند پڑے ہیں۔‘
نبی جان نے بتایا، ’ضلع بھر میں انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے بھی بند ہیں جبکہ تمام سرکاری دفاتر بھی بند کیے گئے ہیں جبکہ علاقے میں خوف کی فضا ہے اور دونوں فریقین کے مشران کی جانب سے حالات کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔‘
اسی طرح اپر کرم کے اسسٹنٹ کمشنر حفیظ اللہ کے مطابق بوغا کے اور بادامہ کے قبائل کے مابین بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
’گھروں میں اشیائے خوردونوش ختم ہونے کے قریب‘
چار دنوں سے جاری جھڑپوں کی وجہ سے علاقہ مکین محصور ہیں اور مقامی افراد کے مطابق ان کے گھروں میں اشیا خوردو نوش بھی ختم ہونے کے قریب ہیں جبکہ جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں کو ہسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیر حمزہ کا تعلق پاڑہ چنار کے علاقے بوشہرہ سے ہے جہاں پر اس وقت جھڑپیں جاری ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گذشتہ رات ہم جھڑپوں کی وجہ سے نہیں سوئے ہیں کیونکہ رات دو تین بجے تک جھڑپین جاری تھیں اور عوام میں خوف پھیلا ہوا تھا۔‘
انہوں نے بتایا، ’جھڑپوں میں زخمی ہونے افراد کو ہسپتال لے جانے کے لیے بھی کوئی بندوبست نہیں ہے جبکہ علاقے کی تمام چھوٹی بڑی سڑکیں بند ہیں اور عوام گھروں میں محصور ہیں۔‘
حمزہ نے بتایا کہ چار دن سے عوام باہر نہیں گئے ہیں اور اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتے تو اشیا خوردو نوش کا مسئلہ بھی پیش آ سکتا ہے، اس لیے حکومت کو جلد از جلد یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے تاکہ عوام امن میں رہیں۔
اپر کرم کے اسسٹنٹ کمشنر حیفظ اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں قبائل کے مابین جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔
’ہم جرگے کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’ ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ آج ضلعی انتظامیہ، پاکستان فوج کے نمائندگان اور دونوں فریقین کے مشران کے ساتھ جرگہ ہوا ہے اور جرگے میں مشران کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ انہیں کچھ چاہیے تاکہ اپنے اپنے علاقے کے لوگوں سے بات کر کے جھڑپوں کو روک سکے۔‘
حفیظ اللہ نے بتایا، ’جرگے میں علاقے کے رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری بھی موجود تھے، اور سکیورٹی فورسز کے نمائندے بھی موجود تھے اور حالات کو قابو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘
فریقین کے مابین جھڑپوں کی وجہ سے کرم کی مرکزی شاہراہ بند ہے جس کی وجہ سے آمدورفت کا شدید مسئلہ درپیش ہے۔
مقامی صحافی نبی جان نے بتایا کہ مرکزی شاہرہ بند ہونے کی وجہ سے ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے لوگ دیگر اضلاع میں پھنس گئے ہیں جس میں بیمار لوگ بھی موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’دیگر شہروں کو علاج اور دیگر ضروری کام کی وجہ سے جانے والے افراد، ضلع کرم نہیں آ سکتے کیونکہ مرکزی شاہرہ بند ہے۔ یہ لوگ یا تو وہ ہیں جن کے علاقوں میں جھڑپیں جاری ہیں یا اسی علاقے سے ان کے گاؤں کی جانب راستہ جاتا ہے۔‘