پاکستان کے دورے پر آئے ایک راہب نے کہا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بدھا کی تخیلات پر مبنی شبیہ موجود ہیں لیکن صرف پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ’ہمارے خیال میں ان کے چہرے کی قریب ترین شبیہ ملتی ہے‘۔
ثقافتی و سیاحتی ڈپلومیسی کے تحت اسلام آباد سے شروع ہونے والا تین روزہ عالمی گندھارا سمپوزیم جمعرات کو پشاور کے عجائب گھر میں اختتام پذیر ہوا۔
اس موقع پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مختلف ممالک کے راہبوں کے گروپ لیڈر انیل ساکیہ نے کہا ہے کہ ’بدھا کے چہرے کی قریب ترین شبہی صرف پاکستان میں دیکھی جاسکتی ہے۔‘
تھائی لینڈ، سری لنکا، نیپال، جاپان، چین، ویت نام، کوریا اور دیگر ایشیائی ممالک سے آنے والے بدھ پیشواؤں نے ٹیکسلا، صوابی میں ہنڈ اور پھر ضلع مردان میں تخت بائی میں بدھ مت کے مذہبی مقامات کا دورہ کیا۔
تاہم انیل ساکیہ نے کہا کہ ’سیاحت اور مذہب دو الگ چیزیں ہیں اور اسی لیے وہ مذہبی سیاحت کے تصور کے حق میں نہیں ہیں۔‘
’سیاحت سے آپ پیسہ کماتے ہیں جبکہ مذہب آپ کو ذہنی سکون دیتا ہے۔ لہذا میرا نہیں خیال کہ یہ ایک کامیاب حکمت عملی ہوگی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اگر سیاحوں کی تعداد بڑھانے کا خواہاں ہے تو اسے سکیورٹی کے نام پر غیر ضروری طور پر اسلحے کی نمائش بند کرنا ہوگی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس تین روزہ عالمی سمپوزیم کا موضوع ’پاکستان میں گندھارا تہذیب اور بدھ مت ورثے کا احیا‘ تھا۔
اختتامی تقریب کے موقع پر ڈائریکٹر آرکیالوجی و میوزیم ڈاکٹر عبدالصمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماضی میں بدھ مذہب کے پیروکاروں کے باقاعدہ چارٹرڈ طیارے سوات اور پشاور آیا کرتے تھے، تاہم یہ سلسلہ نائن الیون کے بعد ختم ہوگیا۔‘
ڈاکٹر صمد نے کہا کہ پچھلے دو تین سال سے حکومت نے جتنی کوششیں کی ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان میں عالمی سیاحوں کی تعداد میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی تک محکمہ آثار قدیمہ نے اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا شروع نہیں کیا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاحت رمیش کمار واکوانی کا کہنا تھا کہ چند سال قبل انہوں نے مذہبی سیاحت کے فروغ کا جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار کر سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گندھارا خواب کا اگلا مرحلہ اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دوست ممالک کے بدھ پیشواؤں کی روزانہ کم از کم ایک فلائٹ لینڈ کرنا ہوگا۔