پنجاب پولیس نے ایک نئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں بچوں کے ریپ کے رپورٹ شدہ واقعات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بچیوں کے مقابلے میں یہ تعداد زیادہ ہے۔
رپورٹ میں اس صورت حال پر تشویش کے ساتھ حکومت سے ان بڑھتے واقعات پر قابو پانے کے لیے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور کی چیئرپرسن سارہ احمد کے مطابق بچوں کے ریپ کے واقعات کو روکنے کے لیے نہ صرف آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے بلکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی یقینی بنانے میں بھی پولیس کی مدد کر رہے ہیں۔
’بچوں سے ریپ کے واقعات میں ملوث ملزموں کے خلاف کارروائی تو جاری ہے مگر والدین اور شہریوں کو خود بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔‘
ماہرین نفسیات کے مطابق پاکستان میں بچوں کے ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی کئی وجوہات ہیں۔
برٹش سائیکالوجسٹس سوسائٹی کی رکن اور ماہر نفسیات طاہرہ رباب کے مطابق: ’سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے معاملے میں نہ والدین تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں تحفظ کی ضرورت ہے نہ ہی اداروں کی جانب سے ایسا کوئی خیال کیا جا رہا ہے کہ بچوں کو بھی بچیوں کی طرح تحفظ کی ضرورت ہے۔
’ہمارے معاشرے میں بچوں کو ریپ سے بچانے کے لیے آگاہی میں شرم رکاوٹ بنتی ہے اور بچے بھی شرمندگی سے بچنے کے لیے کسی کو نہیں بتاتے۔
’جب تک بچوں کو کھل کر اس حوالے سے بچاؤ کے بارے میں باقاعدہ آگاہی نہیں ملے گی یہ واقعات نہیں رک سکتے۔‘
حالیہ دنوں میں لاہور اور فیصل آباد میں بچوں سے ریپ کے بعد قتل کے بھی دو واقعات سامنے آچکے ہیں۔
بچوں سے ریپ کے واقعات
محکمہ پنجاب پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبے میں 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1390 بچوں سے ریپ کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں 959 لڑکوں (69 فیصد) سے اور لڑکیوں سے ریپ کے واقعات کی تعداد 431 (31 فیصد) ہے۔
سب سے زیادہ واقعات گجرانوالہ میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 220 ہے۔
رپورٹ کے مطابق ریپ کے واقعات کی تعداد ڈیرہ غازی خان میں 199، شیخوپورہ میں 128، لاہور میں 89، راولپنڈی میں 69 ،سرگودھا میں 103 رہی۔
اسی طرح فیصل آباد سے 185، ساہیوال 127، ملتان میں 140 اور بہاولپور میں 129 ریپ کے کیس رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 55 فیصد کیسز میں ریپ کے ملزموں میں ہمسائے شامل ہیں جبکہ 13 فیصد کیسز میں ملزم کوئی رشتہ دار اور 32 فیصد اجنبی افراد ہیں۔
پنجاب پولیس نے سفارش کی ہے کہ اس سنجیدہ معاملے پر وزارت انسانی حقوق اور قانون کو چاہیے کہ ریپ سے بچے بچیوں کو محفوظ بنانے کے لیے چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز اور قوانین کے مطابق ملزموں کو سزائیں دلوانے کے لیے عدالتوں کا تعاون یقینی بنایا جائے۔
چائلد پروٹیکشن بیورو لاہور کی چیئرپرسن سارہ احمد نے بتایا کہ ’ہم نے اس بارے میں آگاہی مہم شروع کر رکھی ہے جس میں بازاروں اور سکولوں میں جا کر نہ صرف بچے بچیوں کو جنسی ہراسانی یا ریپ سے بچنے کے لیے طریقے بتائے جاتے ہیں بلکہ والدین کو بھی آگاہی دی جاتی ہے کہ وہ بچوں کو اتنا حوصلہ دیتے رہیں کہ وہ ہر بات آکر والد یا کم از کم والدہ کو ضرور بتائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برٹش سائیکالوجسٹس سوسائٹی کی رکن اور ماہر نفسیات طاہرہ رباب کہتی ہیں: ’میری ریسرچ کے مطابق بچے یا بچیوں سے ریپ کے واقعات کو اس وقت تک کنٹرول نہیں کیا جاسکتا جب تک ان مسائل سے متعلق ہمارے معاشرے میں گھروں یا سکولوں میں بچے بچیوں کو کھل کر آگاہی نہیں دی جائے گی۔
’شرم اور اس طرح کے مسائل پر بات سے ہچکچاہٹ مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔‘
طاہرہ کے بقول: ’بچیوں کی نسبت بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی بچوں کا بچیوں کی نسبت آسانی سے دستیاب ہونا ہے۔
’بچوں کو باہر جانے سے والدین بھی اس احساس کے ساتھ نہیں روکتے کہ معاشرے میں بچوں کو کوئی خطرہ نہیں لہذا ارد گرد موجود جنسی دباؤ کے شکار افراد باآسانی ان بچوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنا لیتے ہیں پھر بچے کسی کو شرم کے مارے بتانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہمارے معاشرے میں ریپ، ہراسانی یا چھیڑ چھاڑ کے وہ واقعات تو رپورٹ ہوجاتے ہین جن میں معاملہ زیادہ تشویش ناک ہو جائے مگر جو گھروں میں آس پاس بچوں کے دوستوں اور رشتہ داروں سے اس طرح کی حرکتیں ہیں وہ پوشیدہ ہی رہتی ہیں۔‘
ماہر نفسیات طاہرہ رباب نے کہا کہ اس طرح کی صورت حال میں بچے بچیوں میں یہ حوصلہ ہی نہیں ہوتا کہ اگر ان سے کوئی ریپ کرتا ہے اور وہ جاننے والا ہے تو شکایت تو دور کی بات ان سے پوچھا بھی جائے تو بتانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
سارہ احمد سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس اس طرح کے واقعات کا شکار لاوارث بچے، بچیاں بھی آتے ہیں لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ بچے یا بچیوں سے ریپ کے واقعات میں پہلے کی نسبت اضافہ ہو رہا ہے۔
’ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جاسکا جو سب کے کردار ادا کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘