چند سال قبل ہمسایہ ملک ایران جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت بڑا شور تھا کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کی جانب سے کسی کارروائی کا خدشہ ہے۔
میں تھوڑا گھبرا گیا اور سوچا کہ لو اب پھر سے ناکہ بندیوں اور چیکنگ کے عمل سے گزرنا پڑے گا جو پاکستان میں بھگتے آئے ہیں۔
دن گزرتے گئے اور وہ خطرہ ٹل گیا، لیکن اس دوران نہ تو وہاں کوئی پولیس نظر آئی اور نہ ہی ناکے۔ لوگ اطمینان سے گھوم پھر رہے تھے۔ اگر کوئی پولیس والا نظر بھی آ جاتا تو وہ کسی اسلحے کے بغیر ہوتا۔
دوسری جانب چند سال قبل میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں واقع فیری میڈوز گیا، جہاں کئی غیر ملکی بھی آئے ہوئے تھے۔ جہاں ہم پاکستانی ہانپتے ہوئے یا گھوڑوں پر سوار جا رہے تھے، وہیں وہ غیر ملکی تیزی سے ٹریکنگ کرتے ہوئے جا رہے تھے، لیکن ہر غیر ملکی گروپ کے ساتھ ان کی سکیورٹی کے لیے ایک پولیس والا تعینات تھا۔
یہ اچھی بات تھی کیونکہ وہ نانگا پربت ہی تھا جہاں پر شدت پسندوں نے غیر ملکیوں کو کچھ سال قبل قتل کردیا تھا۔ اگرچہ پولیس والے غیر ملکیوں کی حفاظت کے لیے تعینات تھے، لیکن سیاحوں کے چہروں پر خوف عیاں تھا۔
حال ہی میں پاکستان میں ثقافتی و سیاحتی ڈپلومیسی کے تحت عالمی گندھارا سمپوزیم ہوا، جس کے دوران تھائی لینڈ، سری لنکا، نیپال، جاپان، چین، ویت نام، کوریا اور دیگر ایشیائی ممالک سے آنے والے بدھ پیشواؤں نے ٹیکسلا، صوابی میں ہنڈ اور پھر ضلع مردان میں تخت بائی کے مقام پر بدھ مت کے مذہبی مقامات کا دورہ کیا۔
ایک طرف انہوں نے پاکستان میں واقع بدھ مت کے مختلف مقامات کی تعریف کی اور کہا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں بدھا کی تخیلات پر مبنی شبیہ موجود ہیں لیکن صرف پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ان کے خیال میں ’بدھا کے چہرے کی قریب ترین شبیہ ملتی ہے۔‘
لیکن جو اہم بات انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ پاکستان اگر سیاحوں کی تعداد بڑھانے کا خواہاں ہے تو اسے سکیورٹی کے نام پر غیر ضروری طور پر اسلحے کی نمائش بند کرنا ہوگی۔
گذشتہ آٹھ سال میں عالمی معیشت کے مقابلے میں سیاحت زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ دنیا بھر میں ایک ارب لوگ ہر سال بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور ان میں سے سیاحوں کی آدھی تعداد ترقی پذیر ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کے پاس سیاحوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
پاکستان نے اب تک تیسری کیٹیگری یعنی ثقافتی سیاحت جس میں مذہبی ثقافت بھی شامل ہے، پر توجہ دینی شروع نہیں کی ہے۔ ملک میں قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔ صوفی مزار، ہندو مندر، سکھوں کے گردوارے اور بدھ مت کی خانقاہیں موجود ہیں، لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان انڈیا، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک سے پیچھے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف پنجاب میں 480 ورثے اور مذہبی مقامات ہیں اور ان میں سے 106 مقامات تاریخی طور پر اہمیت کے حامل ہیں جبکہ 120 مذہبی اور 26 مقامات ایسے ہیں جو مذہبی اور تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں مردان، ٹیکسلا اور سوات کے علاقے بدھ مت کی گندھارا تہذیب کا گڑھ ہیں، جہاں موجود مقامات دنیا بھر میں 500 ملین سے زیادہ بدھ متوں کے لیے بہت خاص ہیں۔ پاکستان ہی میں دنیا کا سب سے قدیم سوئے ہوئے بدھا کا مجسمہ ہری پور میں ہے۔ کوریا، چین اور جاپان کے 50 ملین مہایان بدھ متوں کے لیے خیبر پختونخوا میں تخت بائی اور شمالی پنجاب میں دیگر مقامات مذہبی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان ممالک سے یہاں کوئی نہیں آتا۔
پاکستان میں سیاحت کی صنعت میں سیاسی اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں سفر اور سیاحت کی صنعت کا جی ڈی پی میں 6.9 فیصد حصہ تھا یعنی 19.4 ارب ڈالر اور ایک اندازے کے مطابق 2027 تک سفر اور سیاحت کا جی ڈی پی میں حصہ 7.2 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔
مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت ہے۔ مذہبی سیاحت کی ویب سائٹس کے مطابق آج بھی کم از کم 300 ملین افراد دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کے لیے اہم مذہبی مقامات پر جاتے ہیں۔ ہر سال 600 ملین اندرونی اور بیرونی ٹرپس کیے جاتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں 18 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔
لیکن سیاحت کو بھی بہتر انداز میں کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آنے والے سیاحوں کو شدت پسندوں سے کم اور سکیورٹی اہلکاروں سے زیادہ خوف نہ آئے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔