ماحولیات کے امریکی سفیر جان کیری اتوار کو بیجنگ پہنچ گئے جہاں وہ چین کے ساتھ تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے۔
سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے کیری کی بیجنگ آمد کے بارے میں بتایا کہ پیر سے دونوں ملک موسمیاتی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔
کیری اپنے ہم منصب ژی چین ہوا سے ملاقات کریں گے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ میں کئی ہفتوں سے گرمی کی لہر ہے اور سائنس دانوں کا کہنا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ سال امریکی ایوان نمائندگان کی اس وقت کی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تھا جو بیجنگ کی ناراضگی کا سبب بنا۔
لیکن تائیوان اور دیگر پیچیدہ مسائل کے باوجود سابق امریکی وزیر خارجہ کیری کے چین کے ساتھ نسبتاً خوش گوار اور مستقل تعلقات رہے ہیں۔
ماحولیات کے سفیر کی حیثیت سے ان کا بیجنگ کا یہ تیسرا دورہ ہے۔ اس دورے سے قبل امریکی حکام کے دو دیگر اعلیٰ سطحی دورے ہو چکے ہیں۔
قبل ازیں وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور اس وقت کی وزیر خزانہ جینیٹ یلین بھی بیجنگ کا دورہ کر چکی ہیں جن کا مقصد امریکہ اور چین کے تعلقات کو مستحکم کرنا تھا۔
دیگر معاملات میں کشیدگی کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے بیجنگ کے ساتھ ممکنہ تعاون کے لیے ماحولیات کا انتخابات کیا ہے۔
عالمی ادارہ موسمیات کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان موسمیاتی مذاکرات کا دوبارہ آغاز عالمی سطح پر ریکارڈ گرم ترین ہفتے کے بعد ہوگا، امریکی اور یورپی ایجنسیوں کے مطابق جون اب تک کا گرم ترین مہینہ تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے نومبر میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیری بیجنگ میں اپنے دورے کے دوران چینی حکام کے ساتھ ’کوپ 28 کے نفاذ اور عزائم کو فروغ دینے کے متعلق‘ بات کریں گے۔
تقریباً 200 ممالک متحدہ عرب امارات میں کوپ 28 کے لیے اکٹھے ہوں گے تاکہ گلوبل وارمنگ اور اس کے اثرات کو کم کرنے کا طریقہ تلاش کریں۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک 2026 سے کوئلے کے استعمال میں کمی لائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اپریل میں چین نے کوئلے کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافے کی منظوری دی تھی جس کے متعلق عالمی تنظیموں کے ایک نیٹ ورک گرین پیس کا کہنا تھا کہ اخراج میں کمی کے وعدے پر توانائی کی فراہمی کو ترجیح دی گئی ہے۔
ماحولیات کے متعلق تھنک ٹینک ای تھری جی کے سینیئر پالیسی ایڈوائزر بائیفورڈ سانگ نے کہا، ’بیجنگ میں بہت سے فیکٹرز نے توانائی کے منصوبہ سازوں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔‘
بائیفورڈ سانگ نے کہا کہ ان فیکٹرز میں روس کے یوکرین پر حملے کے معاشی اثرات بھی شامل ہیں، جس کی وجہ سے عالمی گیس مارکیٹ میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوئیں اور حالیہ برسوں میں شدید خشک سالی کی وجہ سے چین میں پن بجلی کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
گذشتہ موسم گرما کے دوران جنوب مغربی چین میں لاکھوں افراد کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ ہیٹ ویو کی وجہ سے بجلی کی فراہمی میں کمی ہوئی جس کے باعث سے فیکٹریوں کو کام روکنا پڑا۔
بائیفورڈ سانگ نے مزید کہا، ’میرے خیال میں اس مرحلے پر کوئلے کی پالیسی کی جانب بڑھنا، چین کے لیے سیاسی طور پر چیلنج ہوگا۔‘
اپنے دورے کے دوران کیری سے توقع ہے کہ وہ بین الاقوامی ماحولیاتی مالیاتی کوششوں کو بھی سامنے لائیں گے۔
واشنگٹن میں کیری کے سفر پر خصوصی توجہ رہے گی، بالخصوص ایسے وقت میں جب ریپبلکن قانون سازوں کا کہنا ہے کہ امریکی سفیر کاربن پھیلانے والے جہاز پر آدھی دنیا عبور کر کے ایک سیاسی مخالف کے ساتھ آب و ہوا کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں۔