پاکستان کو اور کتنی سیاسی جماعتیں چاہییں؟

بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں نے پارٹی توڑ کر نئی سیاسی جماعت بنانے کے عمل کو ’پرانا اور ناکام تجربہ‘ قرار دیا ہے اور اس عمل کو ’ملکی بدحالی‘ اور ’جمہوریت کی کمزوری‘ کا موجب سمجھتے ہوئے مستقبل میں ملک و قوم کے لیے مزید نقصان دہ کہا ہے۔

جہانگیر ترین (بائیں) کی قیادت میں بننے والی استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا اعلان آٹھ جون 2023 کو لاہور میں کیا گیا جبکہ پرویز خٹک (دائیں) کی جماعت پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کا قیام 17 جولائی کو پشاور میں عمل میں لایا گیا (اے ایف پی/ فائل)

پاکستان میں ان دنوں سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ پہلے پنجاب میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں نے استحکام پاکستان پارٹی بنائی اور اب خیبر پختونخوا کے رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے نام سے نئی پارٹی کا اعلان کردیا۔

بیشتر سیاسی تجزیہ کاروں نے پارٹی توڑ کر نئی سیاسی جماعت بنانے کے عمل کو ’پرانا اور ناکام تجربہ‘ قرار دیا ہے اور اس عمل کو ’ملکی بدحالی‘ اور ’جمہوریت کی کمزوری‘ کا موجب سمجھتے ہوئے مستقبل میں ملک و قوم کے لیے مزید نقصان دہ قرار دیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر اس وقت دی گئی سیاسی جماعتوں کی تفصیل کے مطابق رجسٹرڈ جماعتوں کی تعداد 168 ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جمہوری معاشروں میں تعداد پر کوئی قدغن نہیں ہوتی لیکن زیادہ جماعتیں زیادہ سیاسی و معاشرتی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔

ہر ملک ایک منفرد پارٹی نظام کی پیروی کرتا ہے۔ ایک نظام جو ایک ملک میں مفید ہوسکتا ہے وہ دوسرے میں شاید کارگر نہ ہو۔ تاہم چین کی طرز پر ایک جماعتی نظام کو منصفانہ نہیں سمجھا جاتا ہے، نتیجتاً امریکہ کی طرح دو جماعتی نظام یا انڈیا کی طرح کثیر الجماعتی نظام پارٹیوں کو مساوی حیثیت دینے کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں نئی سیاسی پارٹی کو رجسٹر کرنا انتہائی آسان کام ہے۔ کسی کو پارٹی کے ’آئین‘ کی پرنٹ شدہ کاپی، کسی بھی بینک سے پارٹی کے نام پر اکاؤنٹ کی تفصیل اور اس پارٹی کے کچھ عہدیداروں کے ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوتی ہے جبکہ ان دستاویزات کی تصدیق یا رجٹسریشن کی کوئی بھی فیس نہیں ہے۔

نئی پارٹیوں سے مقاصد حاصل ہوسکیں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں ابتدا سے ہی کنٹرولڈ جمہوریت رہی ہے، جسے برائے نام کہا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلے پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانے کے بعد نکالا گیا اور نواز شریف کو لایا گیا، پھر انہیں ہٹا کر پی پی پی کو اقتدار دیا گیا، پھر نواز شریف آگئے، پھر مسلم لیگ ن کو دبا کر عمران خان کو لانے کا نیا تجربہ 2018 میں کیا گیا اور پھر انہیں ہٹا کر پی ڈی ایم جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا گیا۔‘

سلیم بخاری کے مطابق: ’اب نئے انتخابات ہونے ہیں تو پی ٹی آئی کو توڑ کر پہلے پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی اور اب خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین وجود میں آچکی ہے، لیکن نہ تو استحکام پاکستان پارٹی کو مطلوبہ پزیرائی ملتی دکھائی دی اور نہ ہی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرنز ابھی عوامی ترجمانی حاصل کر سکی ہے۔‘

تجزیہ کار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اداروں اور سیاسی جماعتوں نے آئین کے اصولوں پر عمل نہیں کیا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’دنیا کی ہر ریاست میں معاملات چلانے کے لیے کچھ اصول طے کیے جاتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں بھی آئین کے مطابق ہر ادارے اور سیاسی جماعتوں کے کردار سے متعلق واضح اصول موجود ہیں، لیکن کبھی اس پر عمل نہیں ہوا۔ اس میں سب سے بری خرابی یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے، جس طرح فوج کے علاوہ کسی کو دفاعی مہارت نہیں اسی طرح فوج کو بھی سیاست میں مہارت نہیں ہوسکتی۔ یہ کام سیاست دانوں کا ہے اور انہیں کرنے دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نہ تو پہلے زبردستی دبائی گئی اور نئی بنائی گئی جماعتوں سے کام چلا اور نہ ہی اب چلنے کا امکان ہے۔‘

زیادہ تر پارٹیوں کا بظاہر مقصد سیاسی اثرورسوخ اور معاشی فائدے حاصل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی نئی پارٹی انتخابی نشان کے لیے کسی خاص نشان کے حصول کی کوشش کر رہے ہوں جو کسی دوسری پارٹی کو الاٹ ہو چکا ہو تو امکان ہے کہ اس پارٹی سے سودا کرنا پڑے گا۔

استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز میں فرق

جہانگیر ترین کی قیادت میں بننے والی استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کا اعلان نو مئی کے واقعات کے ٹھیک ایک ماہ بعد آٹھ جون 2023 کو لاہور میں کیا گیا جبکہ خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جماعت پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کا قیام 17 جولائی کو پشاور میں نہایت خاموشی سے عمل میں لایا گیا۔

لیکن نہ ہی استحکام پاکستان پارٹی اور نہ ہی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نے اپنا منشور جاری کیا ہے تاہم دونوں عوام کی خدمت کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ماضی میں ایک جماعت میں ہونے کے باوجود دونوں نے مل کر ایک قدرے زیادہ مضبوط پارٹی کی بجائے الگ الگ جماعت بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھوم رہی ہیں۔

اس صورت حال کے حوالے سے تجزیہ کار سلیم بخاری نے کہا کہ  ’پاکستان تحریک انصاف کو نو مئی کے واقعات سے قبل ہی چونکہ اقتدار سے دور رکھنے کا فیصلہ ہوچکا ہے، اس لیے اب پارٹی اور قیادت کے خلاف کارروائیاں مزید تیز ہوگئی ہیں۔

’اس صورت حال میں پنجاب سے جہانگیر ترین کی قیادت میں جو استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی، اس میں تمام رہنما وہ تھے جو پارٹی قیادت سے پہلے ہی اختلاف کر کے باہر ہوچکے تھے۔ دوران اقتدار ہی جہانگیر ترین اور علیم خان علیحدہ ہوکر پی ڈی ایم سے مل گئے تھے اور انہیں پی ٹی آئی قیادت ’لوٹے‘ قرار دیتی رہی ہے۔

’اس کے برعکس پرویز خٹک اور محمود خان دونوں سابق وزرائے اعلیٰ رہے ہیں اور نو مئی کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑی، اس لیے اس جماعت کا بننا کچھ الگ ہے۔‘

یہاں سلیم بخاری نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’دیکھنا ہوگا کہ آیا پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز پارٹی رہنماؤں کو کارروائیوں سے بچانے کے لیے بنائی گئی ہے؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال میں یہ بات خارج از امکان نہیں ہوسکتی کیونکہ مئی 2013 کے انتخابات کے بعد پرویز خٹک خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے اور دوسری بار بھی وہ وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا، اس لیے محمود خان کا پرویز خٹک کی نئی پارٹی میں صف اول میں کھڑے ہونا مشکوک لگتا ہے۔‘

سلیم بخاری کے مطابق: ’عمران خان نے بھی خیبرپختونخوا میں بننے والی اس نئی پارٹی پر اپنے ردعمل میں ’گڈلک‘ کہا، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تحریک انصاف کے تمام رہنماؤں کو قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے، تو اگر وہ اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں  نے امکان ظاہر کیا کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ کسی مقام پر پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کے سربراہ پرویز خٹک ایک پریس کانفرنس کر دیں کہ ہم عمران خان کو ویلکم کرتے ہیں۔ اس طرح پارٹی بھی بچ جائے اور رہنما بھی سیاسی منظر نامے میں ہی رہیں۔‘

نئے تجربات اور عوامی مسائل

عام انتخابات سے قل نئی سیاسی جماعتوں کے قیام سے متعلق پوچھے گئے سوال پر سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے کہا کہ یہ سب ’سیاسی انجینیئرنگ‘ کا نتیجہ ہے اور اس کا عوامی مسائل کے خاتمے یا جمہوریت کی مضبوطی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سےگفتگو میں حسن عسکری نے کہا کہ ’کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان میں مستقل بنیادوں پر جڑیں بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ کسی الیکشن کو شفاف نہیں مانا گیا، ہر بار مقتدر حلقوں کی مداخلت کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے۔ اس بار بھی وہی پرانا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ ایک جماعت کو انتقامی کارروائیوں سے سیاسی طور پر باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور توڑ پھوڑ کر کے دھڑے بنائے جارہے ہیں۔‘

بقول حسن عسکری: ’بااثر قوتیں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے پوری طرح سیاسی انجینیئرنگ کرتی ہیں اور ہر بار اشاروں پر چلنے والی حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔ اس کا عوامی مسائل یا جمہوریت کی مضبوطی سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ بڑے لوگوں کو مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی جیسے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ کوئی بھی جماعت  عوامی حمایت سے اقتدار میں نہیں آسکتی، اس لیے ہر سیاسی جماعت کا رخ مقتدر حلقوں کی طرف رہتا ہے۔ وہ بھی عوامی مسائل کی پروا نہیں کرتے۔ اس وقت جو ملک کی معاشی صورت حال یا گورننس کے مسائل ہیں، ان پر کسی کی توجہ نہیں بلکہ یہ سب بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے کہ کس جماعت کو دبانا ہے اور کس کو اقتدار میں لانا ہے۔‘

تجزیہ کار وجاحت مسعود نے بھی اس صورت حال پر کہا کہ ’آج تک یہی بات با اثر قوتوں کو سمجھ نہیں آسکی کہ انتخابات میں کس نے آنا ہے اور کس نے نہیں۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ کون سی جماعت ملکی نظام میں بہتری اور عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور جسے ووٹ دینا ہے یہ کام عوام کا ہے لیکن یہ دونوں کام بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ خود کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اور ترقی تو کیا مناسب طریقے سے لوگوں کا زندگی گزارنا بھی دشوار ہے۔‘

کیا نئی دھڑے بندیاں معلق پارلیمنٹ کا پیش خیمہ ہیں؟

اس سوال کے جواب میں وجاحت مسعود کا کہنا تھا کہ ’سیاسی طور پر جوڑ توڑ اور دھڑے بندیوں کی تشکیل اس لیے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہاتھ رکھی ہوئی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دے کر اسے کٹھ پتلی کے طور پر چلائیں۔ اب بھی یہ سارا جوڑ توڑ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام کو اختیار دینے کی بجائے خود مرضی کے امیدوار کامیاب کروائے جائیں تاکہ معلق پارلیمنٹ تشکیل دے کر کئی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت بنائی جائے تاکہ کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس اختیار نہ ہو بلکہ ان کی مرضی سے نظام کو چلایا جائے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ تجربہ بھی نیا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے یہ فارمولہ لگاتی آئی ہے کہ جب کوئی ایک سیاسی جماعت ان کی بالادستی مانتے ہوئے پالیسیاں نہ بنائے تو کسی نہ کسی پارٹی کے اراکین کو حکومت کے خلاف کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مشرف دور میں مسلم لیگ ق کو کنٹرول کرنے اور 2018 میں عمران خان کو قابو رکھنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ اس بار استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے ذریعے یہی سب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘

دوسری جانب حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’صورت حال سے واضح ہے کہ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ ہمیں اس کا خیال بھی نہیں کہ اس دور میں بھی ہم آئی ایم ایف سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ جب دنیا نئے نئے ترقی کے منصوبے تشکیل دے رہی ہے ہم آج بھی مرضی کی حکومتیں تشکیل دے کر نئے نئے تجربات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔‘

بقول حسن عسکری: ’جب تک عوامی حمایت یافتہ حکومت ہی قائم نہیں ہوگی تو لوگ اس حکومت کے فیصلوں یا پالیسیوں کو کیسے تسلیم کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس بار جس طرح سیاسی طور پر ایک جماعت کو توڑ کر نئے دھڑے تشکیل دیے جارہے ہیں، لوگوں کو زبردستی حمایت چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، اس سے پہلے کب بہتری آئی جو اب آئے گی۔ موجودہ صورت حال میں بھی بہتری کی صورت نظر نہیں آتی بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے۔‘

سیاسی جماعتتوں کو کھل کر کام کرنے کی پسیس نہ دیئے جانے کی شکایت ماضی میں بھی تھی اور اب بھی قائم ہے۔ ان جماعتوں کی عوام میں مقبولیت پہلے ہی کافی کم ہے تازہ سیاسی تقسیم سے لوگوں میں ان کی پذیرائی مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست