افغانستان کے لیے پاکستان کے نئے نمائندہ خصوصی آصف درانی اپنا عہدہ سنبھالنے کی بعد پہلی مرتبہ سرکاری دورے پر کابل پہنچے ہیں۔
دورے کے بارے میں پاکستان کی وزارت خارجہ نے تو کوئی بیان جاری نہیں کیا اور نہ تفصیلات بیان کی ہیں لیکن افغانستان کے سرکاری میڈیا نے بدھ کو ان کی وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی خبر دی۔
مولوی امیرخان متقی نے آصف دورانی کو ان کی نئی ذمہ داری سنبھالنے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا: ’ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی تعیناتی سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اور اس کے لیے مشترکہ کام کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا افغانستان میں امن کے قیام سے دونوں ممالک کی معیشت کی ترقی، مشترکہ منصوبوں کے آغاز اور تجارت بڑھانے کا بہت اچھا موقع پیدا ہوا ہے۔
امیرخان متقی نے سکیورٹی تعاون کے بارے میں کہا افغان کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ’ہم اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور ہم ہمیشہ خطے میں امن و استحکام کے لیے کام کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک جاری بیان میں کہا کہ امیر خان متقی نے آصف درانی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
بعد ازاں آصف درانی نے کہا کہ وہ ان کو چار دہائیوں کی جنگوں اور مسائل کے بعد مجموعی استحکام اور امن پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
’میری کوشش ہوگی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط اور وسیع تر ہوں۔ پرامن خطہ سب کے مفاد میں ہے اور ہم سلامتی کے شعبے میں تعاون کریں گے۔‘
آصف درانی نے کہا وہ سیاسی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں دوطرفہ میکانزم بنانے اور نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں، مریضوں کے لیے خصوصی سہولیات پیدا کی جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیرخان متقی نے افغان قیدیوں اور تاجروں کے سامان پاکستان میں تاخیر کا شکار ہونے کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا جس کے لیے آصف درانی نے بھرپور تعاون کا وعدہ کیا۔
یہ دورہ پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے تناظر میں ہو رہا ہے۔
شمالی بلوچستان کے علاقے ژوب میں ایک فوجی چوکی پر حملے میں نو پاکستانی فوجیوں کی موت کے بعد تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی۔
دونوں ممالک کے حالیہ بیانات نے بھی اس تلخی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سال تشدد میں 400 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے گذشتہ ہفتے بریفنگ میں کہا تھا کہ ’پاکستان ہمیشہ مذاکرات پر یقین رکھتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نتیجہ خیز نتائج کے لیے مذاکرات اہم ہیں اور ہم افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جس میں انسداد دہشت گردی کے معاملات بھی شامل ہیں۔‘
خصوصی نمائندہ برائے افغانستان کے دورے سے قبل پاکستان کی وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر مملکت برائے خارجہ امور کابل کے دورے کرچکی ہیں۔ افغان عبوری وزیر خارجہ امری حان متقی بھی دورہ پاکستان کر چکے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب ہمارے لیے افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنے کے مواقع تھے تاکہ ان کے ساتھ تعاون اور تشویش کے تمام پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا جا سکے، جس میں افغانستان سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں پاکستان کے سنجیدہ خدشات بھی شامل ہیں۔
’لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مذاکرات اہم ہیں اور ہم ان مذاکرات میں شامل رہیں گے۔ افغانستان میں ہونے والی دیگر پیشرفتوں کے حوالے سے پاکستان ماضی میں کہہ چکا ہے اور ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ تعلیم اور خواتین کے حقوق پاکستان کے لیے ایک اہم تشویش ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ افغان خواتین معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘
اطلاعات کے مطابق آصف دورانی کا یہ افغانستان کا تین روز کا دورہ ہے۔
پاکستان نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ فروری 2020 کے دوحہ معاہدے کی پاسداری کریں اور دہشت گردوں کو دوسرے ممالک کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکیں۔
پاکستان فوج نے بھی افغان طالبان کو گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ وہ اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کو ملک کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہ دیں۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج کو افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لیے دستیاب محفوظ پناہ گاہوں اور کارروائی کی آزادی پر شدید تحفظات ہیں۔
’اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے موثر جوابی کارروائی ہوگی۔‘