ماس ٹرانزٹ: اسلام آباد، نئی دہلی اور ڈھاکہ، کون کہاں کھڑا ہے؟

اسلام آباد شاید دنیا کا واحد دارالحکومت ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی مربوط نظام نہیں۔

سیاحوں کی گاڑیاں آٹھ جنوری، 2022 کو اسلام آباد کے مضافات میں سیاحتی مقام مری کی طرف جانے والی سڑک پر ٹریفک جام کا شکار۔ (اے ایف پی)

عثمان اسلام آباد ایکسپریس وے پر ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا رہائشی ہے جسے اپنے کام کے سلسلے میں روزانہ اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔

عثمان کو آنے جانے میں تین گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور وہ ماہانہ تقریباً 40 ہزار کا فیول ہی نہیں 66 گھنٹے بھی سڑکوں پر ضائع کر دیتا ہے۔

شہر کی سڑکیں جس طرح موت بانٹتی پھرتی ہیں اس کی وجہ سے اسے ہر ایک گھنٹے میں اپنی ماں اور گھر والوں کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ خیریت سے ہے۔

عثمان کی طرح کے ہزاروں لوگ روزانہ اپنے کام کاج کے سلسلے میں پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑواں شہروں میں سفر کرتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شہری نوید ہیں جو اڈیالہ روڈ پر رہتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں دفتر پہنچنے کے لیے روزانہ تین گاڑیاں بدل کر جانا پڑتا ہے۔

نوید کے مطابق ڈیڑھ سال پہلے تک دفتر آنے کا خرچہ تین ہزار روپے تھا جو اب 12 ہزار روپے ہو چکا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ والے ہر 15 دن بعد کرایہ بڑھا دیتے ہیں۔

ان کا بتانا ہے ’کسی کے پاس کرایہ نامہ نہیں اگر شکایت کرو تو نہ ٹریفک پولیس پوچھتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ کیوں کہ سب اس مہنگائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور عوام بری طرح سے پس رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جب وہ 120 کلو میٹر دور اپنے گاؤں جاتے ہیں تو اس کا کرایہ اور دفتر، جو 40 کلومیٹر کے فاصلے پرہے، کا کرایہ ایک جتنا ہے۔ یہ سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔

اسلام آباد شاید دنیا کا واحد دارالحکومت ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی مربوط نظام نہیں۔

میٹرو بس سسٹم جس کا اجرا نوازشریف دور حکومت میں ہوا تھا اس سے مری روڈ سے بلیو ایریا اسلام آباد آنے والوں کو کافی سہولت میسر آئی ہے۔

شہباز شریف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی پشاور موڑ تا نیو ایئرپورٹ، کورال اور بہارہ کہو سے پمز ہسپتال تک بسیں شروع کی ہیں، جس سے محدود پیمانے پر ہی سہی کافی لوگوں کو کم خرچ اور آرام دہ سفری سہو لت میسر آئی ہے۔

آج کل اسلام آباد ایکسپریس وے کی روات تک توسیع اور سگنل فری کوریڈور کا منصوبہ جاری ہے۔ کورال چوک سے روات ٹی چوک تک 12 کلومیٹر سڑک چار رویہ بنائی جا رہی ہے۔

 حالانکہ کورال سے روات ٹی چوک تک ایکسپریس وے پر جتنی ہاؤسنگ سوساٹیاں بن چکی ہیں ان میں اسلام آباد سے دو گنا زیادہ لوگ آباد ہو چکے ہیں جن کے آنے جانے کے لیے کوئی سفری سہولت سرکارنے شروع نہیں کی۔

اب جب روڈ کی توسیع ہو رہی ہے تو میٹرو بس کا ٹریک بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا جا سکتا تھا جس سے کم خرچ میں روڈ کی توسیع کے ساتھ میٹرو کا ٹریک بھی بن جاتا۔

لیکن لگتا ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں کی نظر ہر منصوبے کی بالائی پر ہوتی ہے اس لیے انہیں عارضی منصوبے بنانے اور بنے بنائے منصوبے، اکھاڑنے اور پھر بنانے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔

نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں روات ٹی چوک سے نیو ایئر پورٹ براستہ کشمیر ہائی وے ایک ٹرین چلانے کا منصوبہ بنایا تھا، جس کے لیے چینی حکومت سے بات چیت بھی شروع ہوئی مگر پھر انہیں پانامہ کی نذر کر دیا گیا اور یوں یہ منصوبہ شروع ہی نہیں ہو سکا۔

اسلام آباد، نئی دہلی اور ڈھاکہ، کون کہاں کھڑا ہے؟

راولپنڈی اسلام آباد جڑواں شہر ہیں جن کی مجموعی آبادی نواحی علاقوں سمیت 70 لاکھ کے قریب ہے۔ ڈھاکہ کی ایک کروڑ اور نئی دہلی کی تین کروڑ ہے۔

نئی دہلی میٹرو کی لمبائی 348 کلومیٹر ہے جس میں 255 سٹیشنز ہیں۔ 28 لاکھ لوگ روزانہ میٹرو ٹرین سے سفر کرتے ہیں۔

اس کی نو تعمیر شدہ ریڈ لائن، جس کی لمبائی 160 کلو میٹر ہے اور جس کے 28 سٹیشنز زیر زمین ہیں، اس پر پانچ ارب ڈالر سے زائد لاگت آئی ہے۔

نئی دہلی کا میٹرو کا نظام ایشیا کے بڑے میٹرو سسٹم میں سے ایک ہے۔

ڈھاکہ میں بھی میٹرو ٹرین کے پہلے مرحلے کا افتتاح گذشتہ سال ہو چکا ہے، جو تقریباً 12 کلومیٹر پر مشتمل ہے، جبکہ اس کی کل لمبائی 129 کلو میٹر ہے جس کی مجموعی لاگت چھ ارب ڈالر ہے اور یہ منصوبہ 2025 تک مکمل ہو جائے گا۔

دوسری جانب اسلام آباد ہے جہاں کوئی منتخب عوامی نمائندہ موجود ہی نہیں ہے بلکہ اس کا انتظام ایک بیوروکریٹ کے پاس ہوتا ہے جس کا کام صرف فائلوں کو حرکت دینا اورٹوئٹر پر سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی تصویریں شیئر کرنا رہ گیا ہے۔

اسلام آباد کسی بھی بڑے ماس ٹرانزٹ سسٹم سے بہت دور کھڑا ہے۔

اسلام آباد کے لیے ماس ٹرانزٹ سسٹم کیوں اہم ہے؟

گذشتہ 20 سالوں سے جڑواں شہروں کے پھیلاؤ میں چار گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے، جس سے کئی طرح کے مسائل ابھر رہے ہیں۔

شہر کی سڑکیں وہی ہیں مگر گاڑیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے جس سے ٹریفک جام معمول بن کر رہ گیا ہے۔

انتظامیہ ایک انڈر پاس یا فلائی اوور بناتی ہے تو اس کے بعد اگلے چوک پر ٹریفک جام شروع ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا ایک ہی حل ہے کہ شہریوں کو معیاری ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے تاکہ لوگ اپنی ذاتی گاڑیاں کم سے کم استعمال کریں۔

پھر شہر کے بے ہنگم پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ہاؤسنگ سوساٹیوں کو بھی کہیں پر تو لگام ڈالنا ہو گی۔ دنیا اونچی عمارتوں میں منتقل ہو رہی ہے۔

مگر ہم شہر پھیلاتے جا رہے ہیں جن کے لیے توانائی کا خرچ بھی کئی گنا بڑھ رہا ہے جس سے ماحولیاتی مسائل شدید ہو رہے ہیں۔

جتنے شہر بن گئے ہیں ان سے زیادہ انہیں پھیلنے سے روکا جائے تاکہ پانی اور ماحولیات کو درپیش خطرات بھی کم سے کم کیے جا سکیں۔

شہر کی زوننگ بدلی جائے اور لوگوں کو کثیر منزلہ عمارتوں کی اجازت دی جائے تاکہ انہیں زیادہ سفر نہ کرنا پڑے۔

ان رہائشی علاقوں کو ماس ٹرانزٹ سسٹم سے منسلک کیا جائے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ فیول کی بھی بچت ہو سکے۔

اسلام آباد ایل آر ٹی منصوبہ کیا ہے؟

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے نے اکنامک افیئر ڈویژن سے اجازت مانگی ہے کہ اسےلائٹ ریل ٹرانزٹ منصوبے کے لیے جاپان کی ایجنسی جائیکااور ایشیائی ترقیاتی بنک سے فنڈز لینے کی اجازت دی جائے۔

تقریبا 80 کلو میٹر پر مشتمل یہ منصوبہ چار روٹوں پر مشتمل ہو گا۔ روات ٹی چوک سے فیصل مسجد 30.5 کلومیٹر، جی ٹی روڈ سے سری نگر ہائی وے 13.7 کلومیٹر ، ٹی چوک سے براستہ جی ٹی روڈ 26 نمبر چونگی 25.5 کلومیٹراورجی ٹی روڈ سے فیض آباد براستہ پیر ودھائی 10.4 کلومیٹر۔

سی ڈی اے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ہم نے وفاق سےجائیکا اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ذریعے منصوبے کی فزیبلٹی سٹڈی کے لیے اجازت مانگی ہے کیونکہ عالمی ادارے اس وقت تک فنڈنگ فراہم نہیں کرتے جب تک انہیں یقین نہ ہو کہ یہ منصوبہ قابل عمل ہے اور اتنی سواریاں موجود ہیں کہ منصوبہ چل پڑے گا۔

ہم اپنے طور پر سری نگر ہائی وے اور اسلام آباد ایکسپریس وے پر فزیبلٹی سٹڈی کے لیے تین بار درخواستیں مانگ چکے ہیں لیکن پاکستان میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کو عملی جامع پہنانے کے لیے ماہرین کی کمی ہے۔

اس لیے اب انٹرنیشنل ماہرین کی خدمات لینے پر غور کر رہے ہیں۔ اس منصوبےمیں ابھی بہت خامیاں ہیں۔

ایک تو یہ کہ شہر اب صرف روات سے 26 نمبر پر مشتمل نہیں بلکہ ٹیکسلا اور حسن ابدال، دوسری جانب فتح جنگ اور بہارہ کہو بھی گریٹر اسلام آباد میں شامل ہو چکے ہیں۔

اس لیے جی ٹی روڈ کی ٹرین کا روٹ گوجرخان سے حسن ابدال تک ہونا چاہیے۔ شہر کی انتظامیہ اگر چاہے تو معمولی خرچے سے یہ روٹ تو فوری طور پر چلا سکتی ہے۔

ریلوے ٹریک یہاں پہلے ہی موجود ہے۔ ہر تین چار کلومیٹر پر نئے ریلوے سٹیشن بنائے جائیں اور منصوبہ شروع کر دیا جائے۔

اسلام آباد میں جو ٹریک پہلے ہی آئی نائن تک موجود ہے اسے سری نگر ہائی وے کے ساتھ بہارہ کہوتک توسیع بھی دی جا سکتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک مکمل ماس ٹرنزاٹ سسٹم پر کام شروع کر دیا جائے وگرنہ یہ بات تو اب کہی جانے لگی ہے کہ پاکستان کا مقابلہ اب خطے کے ترقی کرتے ممالک سے نہیں بلکہ افغانستان سے ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ