مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں 1987 میں بننے والی میٹرو ٹرین عرب دنیا کی پہلی میٹرو سروس تھی لیکن 35 سال میں پہلی مرتبہ ان میں خواتین ٹرین ڈرائیورز بھرتی کی جا رہی ہیں۔
قاہرہ میٹرو ٹرین اب لگ بھگ دو کروڑ آبادی کو خدمات پیش کرتی ہے، اس لیے انتظامیہ نے خواتین کو پہلی مرتبہ بطور ڈرائیور بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ ایک ایسے ملک میں بالکل نیا عمل ہے جہاں محض کچھ خواتین کے پاس پیشہ ور ملازمتیں ہیں۔
پہلی دو خواتین ڈرائیوروں کے مطابق رواں سال اپریل سے مسافر انہیں ٹرین ڈرائیور کے کیبن کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے دیکھ کر مختلف ردعمل دے رہے ہیں۔
ان میں سے کچھ کی بھنویں اوپر چلی جاتی ہیں تو کچھ سرے سے نامنظور کر دیتے ہیں۔
مصر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق 1956 سے حاصل ہے لیکن پدر شاہی پر مبنی قوانین اور ثقافتی طور پر مرد کو حاصل برتری نے ان کے ذاتی حقوق کو محدود کیے رکھا ہے۔
قاہرہ میٹرو ٹرین میں بھی خواتین کے لیے مخصوص ڈبے موجود ہیں جو چاہتی ہیں کہ وہ مردوں کے ساتھ سفر نہ کریں تاکہ انہیں جنسی طور پر ہراساں نہ کیا جائے۔
بزنس گریجوایٹ اور دو بچوں کی ماں ہند عمر کہتی ہیں کہ ٹرین ڈرائیور بننے کی درخواست جمع کروانے کے لیے جلدی کرنی پڑی کیوں کہ وہ اس ملک میں پیشرو بننا چاہتی تھیں جہاں 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 14.3 فیصد خواتین ہی باقاعدہ پیشوں میں ملازمت کر رہی ہیں۔
30 سالہ ہند عمر نے بتایا کہ روزانہ ہزاروں زندگیاں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ انہوں نے قاہرہ میٹرو کے مارکے والی چمکیلی کوٹی فخر سے زیب تن کر رکھی تھی اور سر پر کالے اور سفید رنگ کا سکارف تھا۔
ہدن عمر نے اعتراف کیا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنے خاندان کی حمایت حاصل رہی۔ ’آغاز میں میرے والدین کو عجیب لگا لیکن بالآخر انہوں نے میری حمایت کی۔
’میرے شوہر آغاز سے ہی پرجوش تھے اور انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔‘
انہوں نے کہا کہ بنیادی عنصر خواتین ڈرائیوروں کو رات کی شفٹ سے چھوٹ دینا تھا۔
ہند عمر نے بتایا کہ ڈرائیورز بننے کی خواتین امیدواروں کا امتحانی مرحلہ خاصا مشکل تھا جس میں امیدواروں سے ان کی ’توجہ کی مدت‘ اور ’برداشت‘ کا مظاہرہ کرنے کو کہا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرائیورز کو ہفتے میں چھ دن کام کے دوران ’کئی گھنٹوں تک حد درجہ چوکنا رہنا پڑتا ہے‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہند عمر کے ساتھ ٹرین ڈرائیور کے لیے تربیتی پروگرام میں منتخب ہونے والی دوسری 32 سالہ خاتون سوزانے محمد نے اس لمحے کو یاد کیا جب پہلی مرتبہ مسافروں نے انہیں ڈرائیور کے کیبن میں دیکھا۔
’میں سمجھ سکتی تھی کہ ’وہ حیران تھے‘ ایک ایسے ملک میں ہونے کے ناطے جہاں خواتین کو بہت سے شعبوں میں محدود رسائی دی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کچھ مسافر خوف زدہ تھے۔ انہیں میری صلاحیتوں پر شک تھا اور کہتے تھے کہ وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے جب کنٹرول ایک خاتون کے پاس ہو۔‘
1987 میں خدمات کا آغاز کرنے والی قاہرہ میٹرو ٹرین عرب دنیا کی سب سے پرانی میٹرو سروس ہے لیکن خواتین کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں یہ دیگر عرب ممالک سے پیچھے رہ گئی۔
1999 میں مراکش کی سعدیہ عبد افریقہ اور عرب دنیا کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور بنی تھیں۔
سعودی عرب میں بھی جہاں کچھ عرصہ قبل تک خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی تھی لیکن خواتین ٹرین ڈرائیورز کا پہلا گروپ تربیت کے مراحل میں ہے۔
قاہرہ میٹرو ٹرین تین مزید پٹریاں بچھانے اور مصر کا پہلا مونو ریل نظام بننے کی منصوبہ کر رہا ہے۔
اس لیے ہند عمر کو امید ہے کہ ان کی مثال ’دیگر خواتین کے لیے راہ ہموار کرے گی‘ کہ وہ ٹرین ڈرائیورز بن سکیں اور ’ہم جیسے بہت سی خواتین یہاں ہوں گی‘۔