پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے سائیکل مکینک عمران خان گذشتہ ڈھائی عشروں سے بانیان پاکستان اور وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کے پورٹریٹ تیار کر رہے ہیں۔
ان کے بنائے ہوئے پورٹریٹ دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے لیکن ایسے شاندار شاہکار تخلیق کرنے والا آرٹسٹ آج بھی فن اور فنکاروں کی سرپرستی کے لیے بنائے گئے سرکاری اداروں کی توجہ حاصل نہیں کر سکا۔
عمران خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی تعلیم کا سلسلہ غربت اور مشکل مالی حالات کے باعث بچپن میں ہی ختم ہو گیا تھا۔
’میرے والد صاحب سائیکل مرمت کا کام کرتے تھے لیکن وہ اچانک بیمار ہوئے اور مجھے تعلیم چھوڑنا پڑ گئی۔ میں تب سے سائیکل کی مرمت کا کام کر رہا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی فائن آرٹس کا شوق تھا، جسے دیکھتے ہوئے نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی، فیصل آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر اور سینیئر آرٹسٹ سلیم انصاری نے انہیں اپنی شاگردی میں لے لیا۔
’سلیم انصاری صاحب کی بدولت ہی میں آج اس مقام پر ہوں۔ انہوں نے یہ ہنر مجھے سکھایا اور اس کام میں میرا شوق اور لگن دیکھی۔‘
عمران خان کے مطابق ایک پورٹریٹ بنانے میں کم از کم سات سے 10 دن لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ سارا پورٹریٹ پینسل سے بناتے ہیں اور اس میں کافی محنت درکار ہوتی ہے۔
’اب تک میں تقریباً 1500 پورٹریٹس بنا چکا ہوں، جو فیصل آباد آرٹس کونسل میں لگے ہوئے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی میرے ہاتھ کے بنائے ہوئے قائداعظم کے پورٹریٹس لگے ہوئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ فیصل آباد میں اس کام سے آمدن نہیں ہے اور وہ یہ کام ذہنی سکون اور اپنے شوق کی تسکین کے لیے کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر کے لیے انہوں نے قائد اعظم کے جو پورٹریٹس بنائے، وہاں سے انہیں تھوڑی بہت حوصلہ افزائی ملی، لیکن عام لوگوں کی جانب سے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔
بقول عمران: ’جو عام لوگ ہیں اگر میں ان سے کہتا ہوں کہ ایک پورٹریٹ کا پانچ ہزار روپے لوں گا تو وہ کہتے ہیں کہ ایک ہزار روپے لے لیں۔ اب یہ ہزار دو ہزار روپے والا کام تو نہیں ہے، یہ ایک محنت طلب کام ہے۔‘
عمران خان کے مطابق انہوں نے تقریباً 10 سے 12 گروپ نمائشوں میں حصہ لیا اور 2010 میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہونے والی نمائش میں وہ پہلی پوزیشن بھی حاصل کر چکے ہیں۔
بقول عمران: ’پرائیویٹ آرٹ گیلریوں میں جتنی نمائشیں ہوتی ہیں وہاں سے دعوت نامہ آتا ہے تو وہاں ڈسپلے لگا لیتے ہیں لیکن فیصل آباد آرٹس کونسل سے مجھے کبھی کوئی پیغام نہیں ملا کہ آپ یہاں آئیں۔‘