الف لیلیٰ کی کسی کہانی میں ایک محبوس شہزادی کے پاس ایک اجنبی آتا ہے، جسے دیکھ کے پہلے تو وہ ہنستی ہے اور پھر رو پڑتی ہے۔ اجنبی حیران ہوتا ہے اور پوچھتا ہے اے خاتون! آپ پہلے ہنسی کیوں اور پھر روئی کس لیے؟
شہزادی نے آنسو پونچھ کر کہا کہ ہنسی تو اس لیے کہ اتنی مدت بعد کوئی آدم زاد دیکھا اور روئی اس لیے کہ اب تجھے بھی وہ دیو کھا جائے گا، جس کی قید میں میں ہوں۔
یہ کہانی یوں یاد آئی کہ چند روز قبل آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں ہونے والے ورلڈ اوپن سکواش ٹورنامنٹ میں پاکستانی کھلاڑی حمزہ خان چیمپیئن شپ کے فاتح رہے۔ یہ ٹائٹل پاکستان نے 37 برس بعد جیتا۔
خوشی تو بہت ہوئی لیکن جب ساری صورت حال پہ غور کیا تو رونا آگیا۔ ایک ایسا کھیل جس کا نام آتے ہی پاکستان کا نام ذہن میں گونج جاتا ہے، ایک ایسا میدان جس میں پاکستان نے اس وقت جھنڈے گاڑے جب ابھی کسی بھی طرح کی سہولیات نہ تو ملک میں موجود تھیں اور نہ ہی آزادی کے بعد ابھی کئی ادارے کسی فعال شکل میں موجود تھے۔
ایسے کھیل کے اہم ترین ٹائٹل سے پاکستان 37 سال باہر رہا؟
اعظم خان، ہاشم خان، روشن خان، محب اللہ خان، گوگی علاء الدین، قمر زمان خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان۔ یہ نام نہیں، تیکنیک، محنت، جانفشانی اور نظم و ضبط کی مجسم اشکال ہیں۔ ان لوگوں کو بجا طور پہ ’وننگ مشین‘ کہا جا سکتا ہے۔
ایسے شاندار ریکارڈ کے ساتھ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کے ہر شہر میں کم سے کم ایک سکواش کورٹ ہوتا، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر، کلبوں اور ڈپارٹمنٹل سطح پر سکواش کے مقابلے منعقد ہوتے، بہترین کھلاڑی اور کوچ پیدا کیے جاتے، سکواش کے تمام بڑے ٹائٹل ماضی کی طرح ہر بار ہمارے ہی پاس آتے۔
ہوا وہی کہ جس کے بارے میں سوچ کر حمزہ خان کی فتح پر پہلے میں ہنسی اور پھر رو پڑی۔ فیڈریشن جانے کیا پی کے کہاں سوتی رہی؟ کون کون ریٹائرڈ ہمارے ٹیلنٹ کا خون پیتا اور ہمارے ٹیکسوں پر موج کرتا رہا؟ آج یہ حال ہے کہ ہمارے بچوں کو علم ہی نہیں کہ سکواش نام کا کوئی کھیل ہے بھی کہ نہیں۔
حمزہ کا تعلق بھی اسی مردم خیز ’نواں کلی‘ سے ہے جہاں سے ماضی کے سبھی چیمپیئن اٹھے۔ ان کی بھی ذاتی محنت ہے، یہاں سے انہیں سو ڈالر خرچ کے لیے اور ایک ایئر ٹکٹ اور فیڈریشن کے ایک صاحب بطور ہمسفر ملے۔ بس ہاسا ہی نکل گیا۔ سو ڈالر؟ مذاق بھی اچھا کیا جاسکتا ہے۔ کوچ، فزیو، مینیجر وغیرہ وغیرہ کوئی ساتھ نہیں تھا۔ فیڈریشن کے ہمسفر کو کیا کہیے کہ وہ بھی اسی نظام کا پرزہ ہے۔
کب تک، ہم فلم، ادب، سپورٹس اور ثقافت کے متعلق دیگر شعبوں کو نظر انداز کر کے یہ سوچتے رہیں گے کہ لوگ انفرادی سطح پر محنت کریں گے۔ سرخ فیتہ ہر جگہ ان کا راستہ روکے گا اور جب وہ ان سب مصائب کو شکست دے کر کامیاب ہو جائیں گے تو ہم اپنے نام کا ٹھپہ ان کے ساتھ چسپاں کر دیں گے۔
ہمارے وہ نوجوان، جن کے جوان خون کو کسی اور کی پراکسی لڑنے کے لیے اجنبی سر زمینوں پر بے نام و نشان بہایا گیا۔ ان ہی میں سے چند کو کھیل کے میدان میں تربیت دے دی جاتی تو آج ہم لگ بھگ 40 سال کے بعد یہ مقام حاصل کرنے کے بجائے، اس تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہوتے۔
آج بھی ہمارے ہی ملک میں ماضی کے یہ ٹائٹن، قمر زمان خان، جان شیر خان، جہانگیر خان موجود ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں کیا، کئی نسلیں سکواش کورٹ کی نذر کی ہیں۔ یہ کھیل ان کی جینیاتی ساخت کا حصہ بن چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان سینیئرز کی مدد اور رہنمائی سے ایک مربوط اور منضبط سکواش پالیسی بن سکتی ہے لیکن اس کے لیے پہلے عہد کرنا ہو گا کہ اس قومی خدمت کی راہ میں کسی ’ریٹائرڈ‘ کو موج کرنے کے لیے نہیں بٹھایا جائے گا۔
میرٹ، تجربہ، ایمانداری اور محنت کے ساتھ اگر اب بھی صرف نظام کو سیدھا کر لیا جائے تو آج کا حمزہ خان کل کا جہانگیر خان بن کے ابھرے گا۔ شہباز شریف صاحب نے حمزہ کے لیے بہت پر خلوص بیان دیا ہے اور ان کے بارے میں مشہور بھی یہ یہی ہے کہ جس شے پہ ان کی نظر پڑ جائے اسے وہ سنوار کر ہی چھوڑتے ہیں۔
سکواش کا کھیل پاکستان کی شناخت ہے، جس سافٹ امیج کو بنانے کے لیے ہم سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں وہ سافٹ امیج ہمارے کھلاڑی اپنی ذاتی محنت سے بناتے آرہے ہیں۔ موجود حکومت کے آخری دن ہیں۔ خدا کرے کہ اگلی حکومت میں وزارت کھیل میں کوئی ایسا شخص لایا جائے جسے اس شعبے کے بارے میں کچھ علم ہو۔
حمزہ بھی دعاؤں سے جیتا، آنے والے وقت کے لیے بھی ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ہم ایسی قوم ہیں جس کے تکے بھی کئی بار تیر ہو جاتے ہیں اور دعاؤں سے ہارے ہوئے میچ بھی جیت لیے جاتے ہیں لیکن صاحبو! فرشتے بھی اب تنگ آچکے ہیں۔ اس جیت کو مستقل کرنے کے لیے مضبوط پالیسیاں بنائیے۔
امید بھی یہ ہی ہے اور دعا بھی کہ اب نہ صرف یہ ٹائٹل بلکہ سکواش کے کھوئے ہوئے سبھی ٹائٹل گھر واپس آئیں گے۔ ویل ڈن حمزہ خان!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔