اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے اور بچوں کو آن لائن ’بُلی انگ‘ (تنگ کرنے) سے بچانے کے لیے دنیا بھر کے کلاس رومز میں سمارٹ فونز پر پابند عائد کی جانی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو نے کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال تعلیمی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔
برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ زیادہ سکرین ٹائم بچوں کے جذباتی استحکام پر منفی اثر ڈالتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے پالیسی سازوں کو سوچے سمجھے بغیر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’تعلیم کی سماجی جہت‘ پر دھیان دیں۔
یونیسکو نے مزید کہا: ’وہ لوگ جو انفرادیت کو پھیلانے پر زور دیتے ہیں وہ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ تعلیم اصل میں ہے کیا۔‘
اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سمیت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مجموعی طور پر کبھی بھی تعلیم کے ’انسانی مرکزیت‘ پر فوقیت نہیں دینی چاہیے یا روبرو دی جانے والی تعلیم کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’ہر تبدیلی ترقی نہیں ہوتی۔ صرف اس لیے کہ کچھ نیا کیا جا سکتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے کیا بھی جانا چاہیے۔‘
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈری الوزا نے گارڈین کو بتایا: ’ڈیجیٹل انقلاب میں بےپناہ صلاحیت موجود ہے لیکن جس طرح (اس کے منفی پہلوؤں کے بارے میں) خبردار کیا جا رہا ہے کہ معاشرے میں اسے کس طرح منظم کیا جائے، اسی طرح تعلیم میں اس کے استعمال کے طریقے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’اس (ٹیکنالوجی) کا استعمال سیکھنے کے بہتر تجربات اور طلبہ اور اساتذہ کی بھلائی کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ ان کے نقصان کے لیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سب سے پہلے سیکھنے والوں کی ضروریات کو مدنظر رکھیں اور اساتذہ کی مدد کریں۔ آن لائن رابطے انسانی تعامل کا متبادل نہیں ہیں۔‘
یونیسکو نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس واضح مقاصد اور اصول موجود ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی طلبہ کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان کے لیے سود مند ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کلاس رومز اور گھروں میں طلبہ کی ٹیکنالوجی کا ضرورت سے زیادہ یا نامناسب استعمال، چاہے وہ سمارٹ فونز، ٹیبلٹ ہوں یا لیپ ٹاپ پر ہو، پریشان کن، خلل ڈالنے والا اور سیکھنے کے عمل پر نقصان دہ اثر ڈال سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق جب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بات کی گئی تو دنیا کے ممالک میں سب سے پہلے طلبہ کو ترجیح دینے کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا ہو رہی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں تدریسی مواد کے طور پر ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال تمام تدریسی وقت کے 30 فیصد تک محدود ہے، اس لیے طلبہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدگی سے سکرین سے دور رہنے کے لیے وقفہ لیں۔
یونیسکو کے اندازے کے مطابق چھ میں سے ایک ملک نے قانون یا رہنمائی کے ذریعے سکولوں میں سمارٹ فونز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ان میں فرانس بھی شامل ہے جس نے 2018 میں اپنی پالیسی متعارف کرائی تھی جب کہ فن لینڈ امتحانات میں برے نتائج کو روکنے کے لیے کلاس رومز میں فون پر پابندی لگانے والا نیا یورپی ملک ہے۔
اٹلی نے دسمبر میں سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی اور اساتذہ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ دن کے آغاز میں طلبہ سے ڈیوائسز لے لیا کریں۔
توقع ہے کہ نیدرلینڈ 2024 سے ایسی پابندیاں لاگو کرے گا۔
برطانیہ میں سابق وزیر تعلیم گیون ولیمسن نے طلبہ کے نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے 2021 میں سکولوں میں موبائل فون پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن تعلیمی یونینز نے اسے ’خرابی‘ کے طور پر مسترد کر دیا۔
ایسوسی ایشن آف سکول اینڈ کالج لیڈرز کے جنرل سکریٹری جیف بارٹن نے کہا کہ ’سکولوں کی اکثریت میں پہلے سے ہی موبائل فون کے بارے میں سخت پالیسیاں موجود ہیں۔‘
ان کے بقول: ’سکول کے احاطے سے مکمل طور پر موبائل فون پر پابندی لگانے سے کچھ عملی خدشات پیدا ہوں گے، مثال کے طور پر والدین کے لیے جو سکول اور گھر کے درمیان سفر کے دوران اپنے بچوں سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ طلبہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے اپنے فون کو کرائے کی ادائیگی بھی استعمال کریں گے۔‘
سکولوں کے سینیئر وزیر نک گِب نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سمارٹ فون کے بجائے برِک فون (بٹنوں والے فون) دیں تاکہ وہ سکول میں اپنے وقت کا بہتر استعمال کر سکیں۔
© The Independent