روانڈا جلاوطنی کے خطرے سے دوچار افغان پائلٹ کی اہلیہ نے برطانوی حکومت سے جذبات سے بھرپور درخواست کی ہے کہ ان کے خاندان کو برطانیہ میں پناہ دی جائے۔
افغانستان میں روپوش اس خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے انگریزوں کے ساتھ کام کی بھاری قیمت ان کے اہل خانہ کو چکانا پڑ رہی ہے اور مدد کے انتظار میں ان کی زندگی تاریک تر ہو گئی ہے۔
افغان پائلٹ نے اپنا نوجوان خاندان پیچھے چھوڑ کر طالبان حکومت سے فرار ہونے کے بعد انگلش چینل کے پار ایک چھوٹی سی کشتی میں برطانیہ کے سفر کا آخری مرحلہ طے کیا۔
لیکن برطانیہ پہنچنے پر افغان فضائیہ کے اس اہلکار کو حسب توقع مدد نہیں ملی اور اس کے بجائے ہوم آفس کی جانب سے انہیں ایک نوٹس دیا گیا جس میں انہیں روانڈا جلاوطن کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
پائلٹ کی اہلیہ رشی سونک کی حکومت کی جانب سے مدد نہ ملنے پر مایوس ہیں۔ اس اخبار کی جانب سے پائلٹ کی حالت کو اجاگر کرنے کے بعد، پہلی بار اپنے شوہر کے ذریعے ایک پیغام میں، انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ غیر یقینی صورت حال کب ختم ہوگی؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے لیے دنیا تاریک تر ہو گئی ہے، مجھے نہیں پتہ کیا کروں، میں پاگل ہونے والی ہوں۔ ہم طالبان کے خوف سے باہر نہیں جا سکتے۔ ہمارے دن اور راتیں خوف میں گزرتی ہیں۔‘
برطانیہ پر خاندان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے میں ناکامی کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’میں واقعی اس صورت حال سے تھک چکی ہوں۔ یقین کریں، یہ واضح ہے کہ وہاں کی حکومت مدد نہیں کرنا چاہتی ہے۔‘
انہیں براہ راست مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ آپ کا کام کیا تھا اور آپ نے ان کی کس طرح مدد کی۔ یہ واقعی ایک ناقابل تعریف اور ناقابل اعتماد حکومت ہے۔
’بدقسمتی سے ان کے ساتھ آپ کے تعاون کی بھاری قیمت اب ہمیں چکانا پڑ رہی ہے اور وہ ہے طالبان کے ہاتھوں مارے جانا۔‘
سقوط کابل کے بعد کئی ماہ تک چھپے رہنے کے بعد پائلٹ نے - یہ جانتے ہوئے کہ وہ یہ خطرناک سفر نہیں کر سکتیں، اپنی بیوی اور نوجوان خاندان کو چھوڑ کر محفوظ پناہ حاصل کرنے کا دل دہلا دینے والا فیصلہ کیا۔
ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ ’میں نے تمہیں اس کے حوالے کیا۔ جاؤ۔‘
لیکن آج وہ کہتی ہیں کہ ’کاش میں مستقبل کی پیش گوئی کر سکتی اور جانتی کہ ہمارا مستقبل کیا ہے - تو میں تمہیں جانے نہ دیتی۔‘
اس پائلٹ نے جنگ کے دوران برطانوی افواج کی مدد کرنے والوں کو برطانیہ میں محفوظ مقام پر لانے کے لیے بنائی گئی افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی (اریپ) کے تحت برطانیہ میں آبادکاری کے لیے درخواست دی تھی لیکن اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ وہ اب اپنے مستقبل کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بعض اوقات میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ انتظار کے اس کھیل کے باعث ذہنی اذیت سے اچھی طالبان کے ہاتھوں موت ہوتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے زندہ رہنے کی ’واحد وجہ‘ ان کا ’معصوم‘ نوجوان خاندان ہے جو ’اب بھی کچھ نہیں جانتا۔‘
دی انڈپینڈنٹ ان پائلٹوں اور دیگر افغان سابق فوجیوں کو ان ممالک میں پناہ دینے کے لیے مہم چلا رہا ہے جن کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالی تھیں۔ متعدد فوجی سربراہان، سیاست دانوں اور مشہور شخصیات نے اس مہم کی حمایت کی ہے۔
برطانیہ میں سیاسی پناہ کی ان کی درخواست رک جانے کے بعد یہ پائلٹ وائٹ ہاؤس کی جانب سے مدد کے لیے امریکہ کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئے کیوں کہ وائٹ ہاؤس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’ان لوگوں کا خیال رکھا جائے گا جنہوں نے اس ملک میں طویل ترین جنگ کے دوران ہماری مدد کی تھی۔‘
ایک امریکی عہدیدار کی سفارش کے بعد انہیں پی ون آبادکاری سکیم کے تحت امریکہ میں ممکنہ پناہ گاہ کے لیے نامزد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس سکیم کے لیے ان کی اہلیت جاننے کی غرض سے انہوں نے اپنا ابتدائی انٹرویو دیا ہے، اور رواں ماہ کے آخر میں ان کا دوسرا انٹرویو ہے۔
برطانیہ کی کورٹ آف اپیل کے فیصلے کے باوجود روانڈا (جلاوطنی والا) نوٹس ابھی تک واپس نہیں لیا گیا۔ نوٹس واپس لیے بغیر پائلٹ کی سیاسی پناہ کی درخواست پر پیش رفت نہیں ہو سکتی۔
امریکی سینیٹ کے ارکان نے بھی افغان پائلٹ کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کے مطالبے کی حمایت کی، جس کے بعد برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ وہ ان کی آبادکاری سکیم کے اہل نہیں ہیں۔
اتحادی افواج کے سپروائزر کی جانب سے ’اپنی قوم کے لیے محب وطن‘ قرار دیے گئے اس پائلٹ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان ’خوف میں جی رہا ہے‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ کہیں نہیں جا سکتے۔ وہ باہر نہیں جا سکتے۔ وہ مشکل سے زندہ ہیں۔ میری بیوی افسردہ ہے اور وہ بہت مایوس کن باتیں کرتی ہے۔
’وہ انتظار کر رہے ہیں اور مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میرے کیس کا کیا ہو رہا ہے۔ وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کب آئیں گے؟ کبھی کبھی مجھے ان سے جھوٹ بولنا پڑتا ہے کیونکہ میں انہیں سچ نہیں بتا سکتا۔
’اگر میں سچ بولوں، تو یہ بہت تکلیف دہ ہے۔‘
پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے خیراتی ادارے کیئر فور کیلس کے سی ای او اور فوج کے سابق کرنل سٹیو سمتھ کا کہنا تھا کہ ’اس پائلٹ سمیت ہم جن افغان فوجیوں کی مدد کر رہے ہیں، انہوں نے برطانوی افواج کی مدد کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں لیکن ہماری حکومت ان پر دروازے بند کر رہی ہے۔
’وہ صرف برطانیہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک محفوظ مستقبل چاہتے ہیں۔
لیکن ان کو وعدے کے مطابق پناہ گاہ فراہم کرنے کے بجائے، حکومت ان کی پناہ کی درخواستوں میں تاخیر کر رہی ہے، انہیں روانڈا منتقل کرنے اور ان کے اہل خانہ کو افغانستان میں پھنسے رہنے کی دھمکی دے رہی ہے، جو ہر روز طالبان سے خوف میں چھپے ہوئے ہیں۔‘
برطانوی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا، ’اگرچہ ہم انفرادی کیسز پر تبصرہ نہیں کرتے لیکن ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ تمام درخواستوں کا سختی کے ساتھ جائزہ اہلیت کے اس معیار کے مطابق لیا جاتا ہے جو آن لائن موجود ہے۔
’اراپ سکیم ان افغانوں کے ایک مخصوص گروہ کے لیے بنائی گئی جو براہ راست برطانوی مسلح افواج کے لیے یا ان کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ ہم پہلے ہی اراپ کے تحت 12 ہزار دو سو سے زیادہ افغانوں کو منتقل کر چکے ہیں اور ان تمام افراد کو منتقل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں جو برطانیہ میں حفاظت کے اہل ہیں۔
’ہم ان افغانوں کی خواہش کو سمجھتے ہیں جو اب اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، تاہم ہم افغان سکیورٹی فورسز کے تمام سابق ارکان کی معاونت نہیں کر سکتے، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔‘
© The Independent