پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ 15 ماہ قبل جب سے انہوں نے منصب سنبھالا تو ان کی اتحادی حکومت کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا رہا اور ان کے بقول آئی ایم ایف سے معاہدہ آسان نہیں بلکہ انہیں اس کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کی خوشامد بھی کرنا پڑی۔
جمعرات کو رات گئے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’ہمیں حکومت میں آتے ہی سخت مشکلات اور چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ مشکلات ناقابل بیان ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اندازہ تھا کہ معاملات اتنے خراب ہیں ’آئی ایم ایف کے چیلنج نے میری نیندیں حرام کر دیں تھیں۔‘
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انہیں کہا تھا کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ بھی ہوا پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا‘ لیکن وزیراعظم کے بقول’ اگر ایسا نہ ہوتا تو معیشت پر بے پناہ دباؤ پڑنا تھا۔ ملک میں ڈالر کی قیمت اور مہنگائی بہت زیادہ ہوتی۔‘
ان کے مطابق ’پیرس میں ہمیں موقع ملا اور آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے میرے ساتھیوں سے جو کچھ ہو سکا وہ ہم نے کوشش کی اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ خوش آمد کی ان کی۔‘
پاکستانی وزیراعظم نے 22 جون کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے پیرس میں ملاقات کی تھی جس میں انہیں یقین دلایا گیا کہ حکومت آئی ایم ایف سے طے شدہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔
گذشتہ ماہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڑ نے پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر دینے کا ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ (ایس بی اے) معاہدہ منظوری دی تھی جس کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت قرض کی 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط پاکستان کے سٹیٹ بینک میں 13 جولائی کو جمع کروا دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ میں یہ طے پایا تھا کہ لگ بھگ 1.2 ارب ڈالر پہلی قسط کے طور پر ادا کیے جائیں گے جب کہ بقیہ 1.8 ارب ڈالر دو مزید جائزوں کے بعد دو اقساط میں پاکستان کو نو مہینے کے دوران ملیں گے۔
سٹینڈ بائی ارینجمنٹ ہے کیا؟
نو ماہ پر محیط سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے بارے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ مختصر مدت کے لیے کسی ملک کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے، یہ ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی‘ (ای ایف ایف) سے مختلف ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی‘ کے تحت 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن قرض کی آخری قسط کا اجرا گذشتہ سال نومبر سے تاخیر کا شکار تھا۔
اس دوران پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور عارضی طور پر معاشی درشواریوں کو دور کرنے اور معاشی اصلاحات لانے کے لیے پاکستان کو سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی صورت میں عارضی حل دستیاب ہوا۔
عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے کچھ مثبت اشارے پاکستان کی معیشت میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں نہ صرف سٹاک ایکسچینج میں کاروبار میں بہتری آئی ہے بلکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بھی قدرے استحکام آیا ہے۔