اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اٹک جیل سے منتقلی سے متعلق درخواست پر وفاقی اور پنجاب حکومت کے نمائندوں سے جواب طلب کرتے ہوئے معاملہ جمعے تک ملتوی کر دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل مینوئل کے مطابق تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سہولیات فراہمی کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی درخواست پر وفاق اور صوبائی حکومت 11 اگست کو جواب دے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے سزا دی مگر بطور قیدی جو حقوق حاصل ہیں اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ قانون میں قیدی کو جو حق دیا گیا ہے وہ ضرور ملنا چاہیے ہر کسی کے حقوق ہیں۔‘
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا گیا تھا مگر انہیں اٹک جیل بھجوا دیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں اس لیے قیدیوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں رکھا جاتا ہے، اٹک اور دیگر جیل بھجوانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس پنجاب میں کسی بھی جیل میں شفٹ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ’عمران خان جیل رولز کے مطابق اے کلاس کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں اے کلاس نہیں، اس لیے وہاں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔‘
اس موقع پر عدالت نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ اڈیالہ نہیں بلکہ کسی اور جیل میں بھیجنا ہے یہ فیصلہ کون کرے گا؟ پرسوں تک پوچھ کر بتائیں۔
سماعت کے دوران وکیل نے مزید کہا کہ ’عمران خان کو بیرک کے بجائے ایک سیل میں رکھا گیا ہے۔ رات کو بارش کا پانی بھی اس کمرے میں گیا جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو رکھا گیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل جانے کی درخواست دی تھی جو منظور ہوئی تھی۔‘
وکیل نے جواب دیا کہ ’عمران خان کو صرف جیل میں اے کلاس کے حق سے محروم کرنے کے لیے اٹک جیل میں رکھا گیا ہے۔ عمران خان کو گھر کا کھانا فراہم کرنے کی اجازت دینے کا بھی آرڈر کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان سے ملاقات کے لیے اگر لسٹ کے مطابق عدالت آرڈر کر دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’لسٹ کے مطابق آرڈر کر دوں گا لیکن سیاسی اجتماع نا بنایے گا۔‘
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ’سارے لوگ ایک دم نہیں جائیں گے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 50 لوگوں کا سیاسی اجتماع نہ بن جائے۔ وکیل سے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، آپ صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کو سیاسی معاملہ اور وہاں پر رش نا بنائیں، ایک، ایک، دو یا تین وکلا مل کر چلے جائیں۔‘
بدھ کو ہونے والی سماعت میں وکیل شیر افضل مروت نے عدالت سے کہا کہ ’گذشتہ روز آپ نے وکلا کو جیل میں ملاقات کی اجازت دی مگر کل ہم جیل گئے تو ہمیں عدالتی حکم کے باوجود ملنے نہیں دیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ دیر ہو گئی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے عامر فاروق نے استفسار کیا کہ انہوں نے ملاقات نہ کرانے کی کوئی وجہ بتائی؟ کیا جیل میں ملاقات کا کوئی وقت ہوتا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ چھ بجے تک ملاقات کا وقت ہوتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہماری ہی کوتاہی ہے، ہماری کورٹ سے آرڈر دیر سے نکلا۔‘
دوران سماعت وکیل شیر افضل مروت نے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ کی ایف آئی اے پیشی کا معاملہ بھی اٹھایا اور عدالت کو بتایا کہ کل ایک اور واقعہ بھی پیش آیا ہے۔ ’حیدر پنجوتھا ایڈووکیٹ کو کل تفتیش کے نام پر نو گھنٹے ایف آئی اے نے بٹھایا، کل ایک وکیل کو بلایا آج خواجہ حارث کو بلایا گیا ہے۔ اس طرح سے بٹھانا غیر قانونی حراست میں رکھنا ہے۔‘
چیف جسٹس نے اس معاملے پر کہا کہ ’میرے علم میں آیا ہے۔ تحقیقات کا مطلب کسی کو ہراساں کرنا نہیں ہوتا، تفتیش کے نام پر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو تنگ کیا جائے، میں ایڈمنسٹریٹر سائیڈ پر اس کو دیکھوں گا۔‘
عدالت نے عمران خان کو اٹک سے اڈیالہ منتقل کرنے کی پیٹیشن پر سماعت 11 اگست تک ملتوی کر دی۔