عمران خان کے دورہ ماسکو پر پاکستان سے نجی طور پر تشویش کا اظہار کیا: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے سائفر میں موجود تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قیادت کی تبدیلی کے لیے امریکی مداخلت کے الزامات ’جھوٹے‘ ہیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے یہ بات جمعرات کو ایک پریس بریفنگ کے دوران سائفر سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔

میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر خود کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں قیادت کے متعلق امریکی مداخلت کے الزامات جھوٹے ہیں، جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ جھوٹے ہیں، جھوٹے تھے اور ہمیشہ جھوٹے رہیں گے۔‘

امریکی سائفر سے متعلق امریکہ کا موقف جاننے کے لیے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک پاکستانی دستاویز ہے۔ میں اس بارے میں بات نہیں کر سکتا کہ آیا یہ اصل پاکستانی دستاویز ہے یا نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ تبصرے رپورٹ کے مطابق درست بھی ہوں تو یہ کسی بھی طرح سے یہ ظاہر نہیں کرتے کہ امریکہ اس بارے میں کیا موقف اختیار کر رہا ہے کہ پاکستان کا سربراہ کون ہونا چاہیے۔‘

’یوکرین پر روس کے حملے والے دن ہی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ماسکو پر ہم نے حکومت پاکستان سے ویسے ہی نجی طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا، جیسا ہم نے عوامی سطح پر کیا۔‘

میتھیو ملر سے صحافی نے سوال کیا کہ ’دورہ ماسکو پر پاکستان یا عمران خان کو ذاتی طور پر تنہائی کا شکار ہونا پڑے گا۔ اگر ہم اس تبصرے کو درست سمجھیں، تو کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟‘

اس کے جواب میں ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے جواب میں کہا کہ ’تبصرے کی صداقت پر بات کیے بغیر، اگر آپ ان تمام تبصروں کو سیاق و سباق میں لیں جو اس مبینہ کیبل میں رپورٹ کیے گئے ہیں، تو میرے خیال میں وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی حکومت نے وزیر اعظم کے پالیسی انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان تبصروں میں امریکی حکومت کسی بھی طرح سے اس بات کو ترجیح نہیں دے رہی ہے کہ پاکستان کی قیادت کسے کرنی چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اگر وہ تمام تبصرے رپورٹ کے مطابق سو فیصد درست تھے، جیسا کہ میں ان کے بارے میں نہیں جانتا - پھر بھی ان میں کسی بھی طرح سے یہ دکھائی نہیں دیتا کہ محکمہ خارجہ کا نمائندہ لیڈر شپ کے متعلق کوئی موقف اختیار کر رہا ہے۔‘

کسی ملک کی قیادت کی تبدیلی میں امریکی مداخلت سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے میتھیو ملر نے کہا کہ ’پہلی بات، مجھے سمجھ ہے کہ ان تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔

’دوسری بات، ہو سکتا ہے لوگ انہیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنا چاہتے ہوں اور انہیں ایک ایسے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں جو ان تبصروں میں نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے سائفر میں موجود تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

دوسری جانب دی انٹرسیپٹ نے اپنی ایک حالیہ خبر میں خفیہ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے اور پاکستانی سفیر کی امریکی محکمہ خارجہ کے دو حکام سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے دی انٹرسیپٹ کی اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کہانی میں کچھ نیا نہیں ہے، اس معلومات اور اس کی بنیاد بننے والی دستاویز کی سچائی کے بارے میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ممکنہ طور پر، یہ ایک بہت ہی مذموم اور فتنہ انگیز عمل ہے۔‘

رانا ثنا اللہ نے ایکس پر کہا کہ ’یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ عمران خان کے پاس سائفر کی ایک کاپی موجود تھی، جسے انہوں نے واپس نہیں کیا اور آن ریکارڈ قبول کیا کہ وہ ان سے گم گئی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر قصور ثابت ہو تو عمران خان ​​پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔‘

تاہم اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دفتر خارجہ مبینہ لیکس پر تبصرہ نہیں کرتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ