فٹ بال کے عالمی ادارے فیفا کی پاکستان میں نارملائزیشن کمیٹی کے رکن کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں فٹ بال ورلڈ کپ کا کوالیفائر میچ منعقد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رابطہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے فٹ بال سٹیڈیمز فیفا کے معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث اکتوبر میں کمبوڈیا کے ساتھ کوالیفائر میچ کی میزبانی کے لیے پاکستان میں گراونڈز کی اپ گریڈیشن لازمی ہوگی۔
پاکستان میں فٹ بال فیڈریشن میں گذشتہ چند سالوں سے جاری تنازع کے باعث انٹرنیشل فیڈریشن آف فٹ بال (فیفا) نے پاکستان میں فیڈریشن چلانے کی ذمہ داری نارملائزیشن کمیٹی کے سپرد کر رکھی ہے۔
پاکستان کو دو کوالیفائرز میچ کمبوڈیا سے کھیلنا ہوں گے اور جیت کی صورت میں اگلے مرحلہ میں داخل ہونے کی پوزیشن میں ہوگا۔
پاکستان ابھی تک پہلا مرحلہ ہی نہیں جیت پایا اور نہ کبھی فیفا ورلڈ کپ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
پاکستان میں گراونڈز معیار پر پورا نہ اترنے کی صورت میں نیوٹرل مقام یعنی کسی اور ملک میں پاکستان کو کمبوڈیا کی میزبانی کرنا پڑے گی جس کے اخراجات پاکستان حکومت کو اٹھانے ہوں گے۔
فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے رکن شاہد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو فیفا ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے پہلا راونڈ کمبوڈیا کے ساتھ کھیلنا ہے۔ جس میں دو میچز ہوں گے ایک ہماری ٹیم 12 اکتوبر کو کمبوڈیا میں کھیلے گی۔ دوسرے میچ کی میزبانی پاکستان کو کرنی ہوگی جو 17 اکتوبر کو کھیلا جائے گا۔
’پاکستان میں اس وقت کوئی بھی فٹبال گراونڈ فیفا کے طے کردہ عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو آٹھ سال سے ورلڈ کپ کوالیفائرز کی میزبانی نہیں ملی۔‘
شاہد کھوکھر کے بقول ’پاکستان فٹبال ٹیم کبھی پہلا راونڈ نہیں جیت سکی اس بار اگر کامیاب ہوتی ہے تو یہ بہت بڑی جیت ہوگی۔ تاہم اس کے بعد دوسرا مرحلہ ہوگا پھر اس کے بعد اگلے مراحل طے کر کے ٹورنامنٹ میں شامل ہوسکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں لاہور اور اسلام آباد کے فٹبال سٹیڈیم عالمی مقابلہ کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔ ان گراونڈز میں سے کسی ایک کی تیاری کے لیے ہم نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو سپورٹس بورڈز کے ذریعے درخواست کی ہے کہ ہمیں ایک گراونڈ فیفا کے معیار کے مطابق تیار کرا دیا جائے۔ اگر حکومت فنڈز جاری کرنے کو تیار ہوتی ہے تو ہم فیفا کو اپنے گراونڈز کی انسپکشن کرائیں گے۔ لیکن حکومت کے آمادہ نہ ہونے کی صورت میں حکومت کسی اور ملک میں کمبوڈیا سے 17 اکتوبر کو میچ کی میزبانی کا بندوبست کرے گی۔‘
گراونڈر کا معیار اور کھلاڑیوں کی تیاری
شاہد کھوکھر کے مطابق ’ہمارے پاس فٹبال گراونڈ موجود ہیں حکومت فنڈز مختص کرے تو یہی گراونڈ تیار ہوسکتے ہیں۔ لہذا ہمیں یقین ہے کہ حکومت اس معاملہ میں دلچسی کا اظہار کرے گی لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کسی اور ملک میں جاکر میزبانی کے بارے مین غور کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے رکن کے مطابق: ’لاہور اور اسلام آباد میں نیشنل لیول کے فٹبال گراونڈ تو پہلے سے موجود ہیں ان میں صرف لیزر لیولنگ، نرم گھاس اور کمنٹری باکس، سکور بورڈز وغیرہ کو ہی اپ گریڈ کرنا پڑے گا۔ اگر ہم فیفا کو یہاں میچ کرانے کے لیے سٹیڈیم اپ گریڈ کرانے کی یقین دہانی کراتے ہیں تو ایک ماہ میں یہ کام آسانی سے مکمل ہوسکتا ہے۔‘
فٹبال کے قومی پلیئر محمد وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان مین ویسے تو ہر گیم کھلاڑیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کھیل کر ٹیم میں جگہ بنانی پڑتی ہے۔ مگر فٹبال میں تو کلب بھی زیادہ نہیں ہیں۔ فیڈریشن اپنے بجٹ کے مطابق فٹ بال کے مقابلے تو کراتی ہے لیکن عالمی سطح پر کھیلنے کے لیے سہولیات تو درکنار مواقع تک موجود نہیں ہوتے جس سے کھلاڑی گیم برقرار رکھ سکیں۔ جب عالمی معیار کی سہولیات یا ٹریننگ ہی نہیں ہوگی تو بڑے مقابلوں میں کیسے جیت سکتے ہیں۔‘
شاہد کھوکھر سے یہ سوال پوچھا گیا کہ جب عالمی معیار کا گراونڈ ہی نہیں تو ہماری ٹیم کے کھلاڑی ورلڈ کپ تو کیا اس تک پہنچنے کے مراحل بھی جیت سکتے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ بات تو درست ہے فٹ بال میں ہمارے کھلاڑیوں کی کہ عالمی معیار کے گراونڈ دستیاب نہیں۔ لیکن ہم انہیں تربیت بہت اچھی کراتے ہیں اور انہیں اچھے لیول کی کوچنگ فراہم کرتے ہیں جو انہیں کھیل کی بنیادی تکنیک سکھاتے ہیں۔ رہی بات گراونڈز کی تو اس سے اتنا زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے گراونڈز قدرے بہتر ہیں جب کھلاڑیوں کو ان سے بھی اچھے گراونڈز میں کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو وہ پہلے سے بھی بہتر کھیلتے ہیں۔‘