پنجاب: سرکاری ہسپتالوں میں بہتری کس طرح ممکن؟

پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی شکایات کے باعث نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی آئے روز ہسپتالوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں، اپنے ہر دورے کے دوران انہوں نے ہسپتالوں میں دستیاب سہولیات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

فائل فوٹو: مریضوں اور ان کے لواحقین کے مطابق مفت ملنے والی ادویات کی قلت، تھیٹرز میں بجلی کی بندش، بیڈز کی کمی اور فنڈز نہ ہونے کے باعث مریض اور ان کے لواحقین پریشان ہیں(اے ایف پی)

گذشتہ ایک ماہ کے دوران لاہور کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن کے دوران بجلی بند ہونے کے دو واقعات پیش آ چکے ہیں۔

بنیادی سہولیات نہ ہونے کی شکایات کے باعث نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی بھی آئے روز ہسپتالوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے ہر دورے کے دوران ہسپتالوں میں دستیاب سہولیات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

مریضوں اور ان کے لواحقین کے مطابق مفت ملنے والی ادویات کی قلت، تھیٹرز میں بجلی کی بندش، بیڈز کی کمی اور فنڈز نہ ہونے کے باعث مریض اور ان کے لواحقین پریشان ہیں۔

مریضوں کا کہنا ہے کہ انہیں ’پہلے تو آپریشن کے لیے کئی کئی ہفتوں کا ٹائم دیا جاتا ہے اور جب داخل ہو جائیں تو بیڈ دستیاب ہوتا ہے نہ ادویات، جو باہر سے مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں۔‘

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق ’ہسپتالوں میں موجود سہولیات آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں لہذا حکومت نظام بہتر کرے گی تو ہی مریضوں کو مکمل طبی امداد فراہم کر پائیں گے۔ مفت ملنے والی ادویات بھی دستیاب نہیں، بیڈز اور تھیٹرز بھی مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ’ہسپتالوں کا نظام جتنا خراب ہے اس کے لیے چند مہینوں اور موجودہ فنڈز میں بہتری ممکن ہے لیکن مکمل بحالی مشکل ہے۔

’حکومت اپنے اختیارات کے مطابق فوری امداد ضرور فراہم کر رہی ہے لیکن صحت کا نظام سابقہ حکومتوں کے نظر انداز کرنے پر پوری طرح کام نہیں کر رہا۔ تاہم محدود وسائل کے باوجود وزیر اعلیٰ اور وزارت صحت پوری کوشش کر رہے ہیں کہ حالات بہتر کیے جائیں۔‘

ہسپتالوں کے بنیادی مسائل

لاہور کے بڑے سرکاری ہسپتا؛ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیا لوجی (پی آئی سی) میں زیر علاج ارشاد بی بی کے بیٹے خاور حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری والدہ کو دل کی تکلیف تھی، انہیں یہاں لایا گیا۔ انہیں ایمرجنسی میں طبی امداد دی گئی اس کے بعد ان کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو ٹیسٹ کرائے گئے، جن میں انجیو پلاسٹی تجویز کی گئی۔‘

’دو دن گزر چکے ہیں ابھی تک ان کی انجیو پلاسٹی نہیں کی گئی۔ ڈاکٹرز سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہاں دو دو ہفتوں سے مریضوں کی انجیو کا وقت دیا ہوا ہے لسٹ لمبی ہے جب باری آئے گی تو کر دی جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کئی ادویات جو ہسپتال سے ملتی تھیں وہ ختم ہونے کی وجہ سے باہر سے منگوانی پڑ رہی ہیں۔ بار بار عملہ پوچھتا ہے کہ مریض کی طبیعت ٹھیک ہے تو گھر جائیں بیڈز کی کمی ہے دوسرے مریض کو لٹانا ہے۔‘

ماہرین کے مطابق پی آئی سی میں دیگر ہسپتالوں جیسے میو، گنگا رام، جنرل، جناح اور چلڈرن ہسپتال کی نسبت بہتر سہولیات موجود ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر مدثر اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات ناکافی ہیں لیکن سب سے زیادہ دباؤ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں پر پڑا ہوا ہے۔

’یہاں 1991 میں جناح ہسپتال کے بعد کوئی بڑا ہسپتال نہیں بنایا گیا۔ جو پہلے سے موجود ہیں ان میں لاہور سمیت قریبی شہروں سے آنے والے مریضوں کا رش سہولیات کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہے۔‘

’پہلے تو بات کرتے ہیں آپریشن تھیٹرز کی، ایمرجنسی میں دو آپریشن تھیٹر ہوتے ہیں لیکن مریض سینکڑوں کی تعداد میں ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں آتے ہیں۔ جن میں سے 50سے 60 تک کا آپریشن ضروری پوتا ہے مگر تھیٹر کم ہونے پر وہ کئی کئی گھنٹے پڑے رہتے ہیں۔ جن مریضوں کے حالات سیریس ہوں ان کے لواحقین اسی لیے غصے میں آ کر ڈاکٹروں سے لڑ پڑتے ہیں۔‘

’دوسری طرف ہسپتالوں میں مریض پانچ سے چھ ہزار آتے ہیں، بیڈ ہوتے ہیں سو، تو اسی لیے ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض لٹا کر یا فرش پر بیٹھا کر علاج کرنا پڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر مدثر کے بقول تیسرا مسئلہ ’مفت ادویات کی فراہمی کا ہے۔ ہسپتالوں میں ان دنوں ساٹھ فیصد تک دوائیوں کی کمی کا سامنا ہے جو مریضوں کے لیے باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔ ہم نے حکومت کا ادویات کا ریکارڈ آن لائن کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔ گذشتہ چار ماہ سے سب سے بڑا مسئلہ تھیٹرز میں بجلی بند ہونے کا ہے۔ دوران آپریشن بجلی بند اور بیک اپ نہ ہونے سے مریضوں کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘

’اگر ہم ویڈیو بنا کر منظر عام پر لائیں تو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہسپتال کو بدنام کیا جارہا ہے لیکن جب وزیر اعلیٰ پنجاب نے خود دورے کیے ہم نے انہیں سارے مسائل دکھائے تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے ذمہ دار ڈاکٹر نہیں بلکہ حکومتیں ہیں جو فنڈز فراہم کم کرتی ہیں اور شعبہ صحت کو نظر انداز کرتی ہیں۔‘

’انہوں نے سوال کیا کہ مریضوں کا علاج ڈاکٹروں کی ڈیوٹی ہے لیکن ہم بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث سب مریضوں کو علاج کی سہولت کیسے فراہم کریں؟‘

حکومتی اقدامات

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب سے نگران حکومت آئی ہے ہماری پہلی ترجیح سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہے لیکن حالات اتنے خراب ہیں کہ ان پر فوری مکمل قابو نہیں پایا جاسکتا۔ افسوسناک بات ہے کہ کسی حکومت نے صحت کے شعبے پر توجہ نہیں دی اور مریضوں کے مقابلے میں ہسپتالوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔

’اب صورت حال یہ ہے کہ کہیں تھیٹر پورے نہیں، جہاں ہیں وہاں سہولیات پوری نہیں ہیں۔ لیکن ہم محدود وسائل کے باوجود نظام میں بہتری کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر جاوید اکرم کے بقول ’ہسپتالوں میں بجلی نہ ہو تو یو پی ایس اور جنریٹر موجود ہیں، اگر ان میں خرابی ہو جائے تو ہی تھیٹر میں بجلی بند ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عرصہ دراز سے ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن نہیں ہوئی جس سے کافی مشینری اور آلات اپنی مدت پوری کر چکے ہیں، ان کی مرمت کر کے کام چلا رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ نے دوروں کے دوران فوری ضرورت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ جن سے کچھ بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ مریضوں کو ملنے والی مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’اس معاملے پر بھی کوئی کوہتاہی برداشت نہیں کی جا رہی۔ گذشہ دو ماہ میں کئی ہسپتالوں کے ایم ایس اور شعبوں کے انچارج کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔ جہاں انتظامی امور کی لاپروائی کی نشاندہی ہو رہی ہے ہم بلا امتیاز کارروائی کر رہے ہیں۔‘

صوبائی وزیر کے مطابق ’کروڑوں افراد پر مشتمل آبادی کے لیے موجودہ سرکاری ہسپتالوں کی تعداد بہت کم ہے اس لیے فوری بڑے ہسپتال تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام نگران حکومت کر نے کا اختیار نہیں رکھتی لہذا آئندہ منتخب حکومت کو یہی تجویز دیں گے۔

’سب سے پہلے صحت کے شعبے پر توجہ دے تاکہ لوگوں کو علاج کی سہولت میسر ہوسکے۔ کئی سرکاری ہسپتالوں کی عمارتیں بھی بوسیدہ ہوچکی ہیں جیسے گنگا رام، میو ہسپتال بہت پرانے ہسپتال ہیں یہاں کافی حصے ایسے ہیں جنہیں مسمار کر کے نئی تعمیرات کی جائیں۔ جدید آلات پر مبنی آپریشن تھیٹرز کی ہر ہسپتال میں ضرورت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت