گھروں میں شیر پال کر ان کی سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر تشہیر کرنے والے ہوشیار ہو جائیں کہ محکمہ جنگلی حیات لاہور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کے لیے متحرک ہو گیا ہے۔
چند روز قبل ٹک ٹاک پر تقریباً تین ملین فالورز رکھنے والے ثاقب احمد کو بھی شیروں کی تشہیر مہنگی پڑ گئی۔
لاہور میں ثاقب احمد کے واپڈا ٹاؤن میں واقع گھر پر محکمہ جنگلی حیات کی ٹیم نے چھاپہ مار کر وہاں سے دو شیر اور ایک ٹائیگر برآمد کر کے انہیں جلو پارک جبکہ ثاقب کو جیل منتقل کر دیا۔
ترجمان محکمہ جنگلی حیات لاہور محمد رمضان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات نے لاہور پولیس کے ساتھ مل کر ثاقب احمد کے گھر پر چھاپہ مارا۔
ثاقب نے گھر کی چھت پر غیر قانونی طور پر شیروں کو رکھا ہوا تھا اور وہ ان کی نہ صرف سوشل میڈیا پر تشہیر کرتا تھا بلکہ لوگوں کو لاکھوں روپے دے کر شیروں کے پنجرے میں جانے کی شرط بھی لگاتا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ثاقب کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ دیکھا تو اس میں بھی ایک ایسی ہی ویڈیو تھی، جس میں وہ لوگوں کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ شیر کے پنجرے میں پانچ منٹ گزارنے والے کو پانچ لاکھ روپے دیں گے۔
ثاقب کے اکاؤنٹ پر ایسی بھی کئی ویڈیوز تھیں جن میں بہت سے دوسرے شہروں سے آئے لوگ بھی اس چیلنج کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ثاقب ان لوگوں سے کہلواتے ہیں کہ پنجرے میں جانے والے کو نقصان کی ذمہ داری ان (ثاقب) پر نہیں ہو گی۔
محمد رمضان نے مزید بتایا کہ ثاقب کے اس عمل کی اطلاع انہیں اسی چیلنج کو قبول کرنے والے ایک شخص نے دی تھی جس کے بعد محمکہ نے فوری طور پر جوڈیشل مجسٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور سے سرچ وارنٹ اور متعلقہ مقامی پولیس کے تعاون سے محکمہ جنگلی حیات سکواڈ پنجاب اور محکمہ جنگلی حیات سٹاف لاہور ریجن کی ایک مشترکہ ٹیم نے جمعہ کو ثاقب کے گھر چھاپہ مارا اور جنگلی جانوروں کو برآمد اور ثاقب کو گرفتار کر لیا۔
محمد رمضان نے بتایا کہ ثاقب کو اگلے روز مقامی عدالت جوڈیشل میجسٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے شیروں کو فوری جلو وائلڈ لائف بریڈنگ فارم میں منتقل کرنے کا حکم دیا جبکہ ثاقب کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی۔
ان کے مطابق ثاقب کے خلاف تھانہ ستو کتلہ میں گھر پر جنگلی جانور رکھنے اور ان کی عوام میں تشہیر کرنے کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔
لاہور پولیس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ کی گئی جو اس وقت سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک پر’سافٹ ویئر اپڈیٹڈ‘ کے نام سے وائرل ہے، جس میں ثاقب نہ صرف اقبال جرم کر رہے ہیں بلکہ اپنے عمل کی معافی بھی مانگ اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ بھی کر رہے ہیں۔
شہریوں کو دس لاکھ روپے کا لالچ دے کر شیروں کے پنجرے میں داخل کرنے والا ملزم گرفتار، ستوکتلہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا، #LahorePolice #PunjabPolice #LahorePoliceOperationsWing@ccpolahore @OfficialDPRPP @digopslahore @GovtofPunjabPK pic.twitter.com/ZJMFKlt4zA
— Lahore Police Official (@Lahorepoliceops) August 11, 2023
محکمہ جنگلی حیات لاہور کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر جنجوعہ کے مطابق ثاقب کی ضمانت ہو چکی ہے اور اس وقت ان کا کیس عدالت میں ہے۔
انڈپینڈنت اردو نے ثاقب سے رابطے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
سوشل میڈیا پر ثاقب اکیلے نہیں جو شیروں کے ساتھ ویڈیوز بناتے ہیں بلکہ ایسے متعدد اکاؤنٹس ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور فیس بک اور یو ٹیوب پر موجود ہیں، جن پر ایسی ہی ویڈیوز موجود ہیں اور ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ایسا ہی ایک اکاؤنٹ ایک خاتون کے نام سے بھی موجود ہے۔
تنویر جنجوعہ نے بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات اس وقت ٹک ٹاک یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جنگلی جانوروں کی تشہیر کرنے والوں کے خلاف مکمل طور پر متحرک ہو گیا ہے اور ان سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔
شیر گھر پر رکھے جا سکتے ہیں؟
اس حوالے سے ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور سفاری پارک غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شیر کو رکھنے کے لیے ڈپٹی کمشنر سے ایک این او سی کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ڈپٹی کمشنر درخواست محکمہ جنگلی حیات کو ارسال کریں گے اور متعلقہ شہر کا ڈپٹی ڈائریکٹر یا اسسٹنٹ ڈائریکٹر اس درخواست کو دیکھے گا اور شیر کے مالک کے پاس جا کر دیکھیں گے کہ کیا ان کے پاس خونخوار جانور کو رکھنے کی مناسب جگہ موجود ہے اور اگر وہ جگہ قوائد و ضوابط کے مطابق ہے تو ڈپٹی کمشنر اپنے ریمارکس کے ساتھ وہ درخواست واپس ڈپٹی کمشنر کو بھیجے گا کہ اس شخص کو این او سی دے دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں دو طرح کے لوگ شیر رکھتے ہیں جس میں ایک بریڈنگ فارم کے زمرے میں اور دوسرا انفرادی طور پر شوقیہ شیر پالنا ہے۔ ’اگر کوئی انفرادی طور پر شیر رکھنے کے لیے ایک، دو یا تین شیروں کا این او سی لیتا ہے تو اس میں کوئی قدغن نہیں ہے کہ وہ شیر کی افزائش نسل نہیں کروا سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اکثر لوگوں نے گھروں شیر اپنی امارت کی علامت کے طور پر رکھے ہوئے ہیں۔
غلام رسول سے دریافت کیا گیا کہ کیا سوشل میڈیا پر شیروں کی تشہیر کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ محکمہ جنگلی حیات نے متعدد بار ایسے کیسسز کو چیک کیا ہے۔ ’اگر ایسی کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو اس پر ایکشن لیا جاتا ہے۔‘
شیر ملتے کہاں سے ہیں؟
اس حوالے سے غلام رسول کا کہنا تھا کہ یہ خیال غلط ہے کہ لوگ شیر سفاری پارک یا چڑیا گھر سے لیتے ہیں۔ ’ہمارے ہاں تو کافی لمبے عرصے سے شیروں کی نیلامی نہیں ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے محکمہ جنگلی حیات کو کچھ جانور نیلام کرنے کا کہا ہے، کیونکہ سفاری پارک یا لاہور چڑیا گھر میں شیروں کی تعداد وہاں موجود گنجائش سے زیادہ ہو جاتی ہے تو اضافی جانوروں کو نیلام کر دیا جاتا ہ، لیکن اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے۔
’ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص آ کر اس کو خرید سکتا ہے۔ شیر خریدنے والے کو چیک کیا جاتا۔ اس کے پاس این او سی ہونا ضروری ہے۔ شیر کو رکھنے کی جگہ موجود ہونا ضروری ہے۔‘
شیر کے لیے درکار جگہ
غلام رسول کا کہنا تھا کہ شیر اور شیرنی کے جوڑے یا شیرنی اور بچوں کی صورت میں 500 مربع میٹر کی ہونا چاہیے، جبکہ بعد ازاں جتنے بچے آتے جائیں گے ہر بچے کے لیے 50 مربع میٹر مزید سپیس درکار ہو گی۔
’یعنی جو انکلوژر آپ بنا رہے ہیں اس میں اتنی جگہ چھوڑنا پڑے گی جو آنے والے بچوں کو دی جا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اس انکلوژر کی اونچائی ساڑھے تین میٹر ہونا ضروری ہے، جبکہ انکلوژر کے اندر کا حصہ کم از کم 15 مربع میٹر ہونا چاہیے۔