علی وزیر، ایمان مزاری کا ایک روزہ ریمانڈ، دہشت گردی کا مقدمہ درج

پی ٹی ایم رہنما علی وزیر اور ایڈووکیٹ ایمان مزاری کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرکے آج مقامی عدالت میں پیش کیا، جہاں دونوں کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔

بائیں جانب ایڈووکیٹ ایمان حاضر زینب مزاری اور دائیں جانب پشتون تحفظ موومنٹ  کے رہنما علی وزیر (تصاویر: ویڈیو سکرین گریب/ علی وزیر ٹوئٹر اکاؤنٹ)

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سڑکوں کی بندش کے ایک مقدمے میں اتوار کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈووکیٹ ایمان حاضر زینب مزاری کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

علی وزیر اور ایمان مزاری کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا، جنہیں آج اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں دونوں کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے آفیشل ایکس اکاؤنٹ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں علی وزیر اور ایمان مزاری کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’دونوں ملزمان اسلام آباد پولیس کو تفتیش کے لیے مطلوب تھے۔ تمام کارروائی قانون کے مطابق عمل میں لائی جائے گی۔‘

اس سے قبل اسلام آباد پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کو بتایا کہ علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف تھانہ ترنول میں ہفتے کی شب ایف آئی آر درج ہوئی، جس کے باعث انہیں حراست میں لیا گیا۔

پولیس افسر کے مطابق علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف 18 اگست کو این او سی کی خلاف ورزی، بغیر اجازت جلسے اور سڑکوں کی بندش پر یہ ایف آئی آر درج ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

18 اگست کو پی ٹی ایم نے اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول میں ایک جلسہ کیا تھا۔ اس سے قبل یہ جلسہ سپریم کورٹ کے باہر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم بعدازاں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا تھا کہ کامیاب مذاکرات کے بعد پی ٹی ایم قیادت نے اسلام آباد جلسہ گاہ کی جگہ سپریم کورٹ سے تبدیل کر کے ترنول کرنے پر اتفاق کیا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’ریلی/ جلسہ بمطابق این او سی ترنول چوک جی ٹی روڈ کی ایک سائیڈ پر کرنا تھا۔ انہوں (پی ٹی ایم شرکا) نے این او سی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب چلنا شروع کردیا، جن کو روکا گیا تو ریلی کی شرکا جن کی تعداد 700 سے 800 کے قریب تھی، جن میں سے اکثر شرکا بامسلح ڈنڈے اور چند کے پاس آتشی اسلحہ بھی تھا، نے پولیس فورس کے ساتھ مزاحت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ جن کو نفری کی مدد سے آگے بڑھنے سے روکا گیا تو شرکا نے کنٹینر اور گاڑیاں جی ٹی روڈ کے درمیان کھڑی کرکے جی ٹی روڈ کو دونوں طرف سے بند کر دیا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’جب پی ٹی ایم کی قیادت اور شرکا کو جی ٹی روڈ کھولنے کا کہا گیا تو شرکا مزاحمت کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے پولیس پر حملہ آور ہوئے اور سرکاری گاڑی کے شیشے توڑ دیے۔‘

دہشت گردی کا بھی مقدمہ

دوسری جانب سی ٹی ڈی تھانے میں پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین، علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق: ’قائدین نے (18 اگست کے جلسے میں) اپنی تقاریر میں ریاستی اداروں، فوج و سرکاری ملازمین میں بغاوت پیدا کرنے، حلف سے انحراف کرنے اور فوج کو کمزور کرنے، دہشت گردی کو پروان چڑھانے، خانہ جنگی اور سول نافرمانی کرنے کی ترغیب دی، جس کے بعد تقاریر کے دوران مجمعے نے فوج و ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی۔‘

میری بیٹی کو گھر سے ’اغوا‘ کرلیا گیا: شیریں مزاری

اس سے قبل سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا تھا کہ اتوار کو علی الصبح ان کی بیٹی ایڈووکیٹ ایمان مزاری کو اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے خواتین پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ساتھ لے گئے۔

سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر صبح چار بجے کے قریب اپنے پیغام میں شیریں مزاری نے لکھا: ’ابھی ابھی خواتین پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ ہمارے (گھر کے) مرکزی دروازے کو توڑ کر اندر آئے اور میری بیٹی کو ساتھ لے گئے۔ ہمارے سکیورٹی کیمرے اور ایمان کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون چھین لیا۔‘

شیریں مزاری کے مطابق ہم نے پوچھا کہ وہ کس لیے آئے ہیں اور وہ ایمان کو گھسیٹ کر باہر لے گئے۔ وہ پورے گھر میں گھومتے رہے۔ میری بیٹی اپنے رات کے کپڑوں میں تھی، انہوں نے کہا کہ مجھے لباس تبدیل کرنے دو لیکن وہ انہیں گھسیٹ کر لے گئے۔‘

سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ انہیں کوئی وارنٹ نہیں دکھایا گیا اور نہ کوئی قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ شیریں مزاری نے اسے ’ریاستی فاشزم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم گھر میں صرف دو خواتین رہتی ہیں۔ اس طرح ایک اغوا ہے۔‘

ایمان مزاری نے بھی اتوار کو صبح تین بجکر 20 منٹ پر اپنے گھر میں نامعلوم افراد کے داخلے اور سکیورٹی کیمرے توڑے جانے کے حوالے سے ٹویٹ کی تھی۔

ایکس پر ‘ریلیز ایمان مزاری‘ کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر ہے، جس میں ایمان مزاری اور علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی ایمان مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان