پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کو ملنے والی سہولیات پر تنازع جاری

انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی سے وابستہ خواتین کی گرفتاری کے معاملے میں شفافیت اور عمران خان کو جیل میں سہولیات نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کراچی میں پولیس ایک پی ٹی آئی کارکن کو 11 مئی 2023 کو حراست میں لے رہی ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)

پاکستان میں نو مئی کے واقعات کے بعد گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں بڑی تعداد میں خواتین کارکن بھی پکڑی گئیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان سب کی تفیصلات شیئر کی گئی ہیں لیکن پی ٹی آئی اور حقوق انسانی کمیشن اس سے مطمئن نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی تاحال گرفتار خواتین اور نوجوان کارکنان سے متعلق تفصیلات نہیں دی جا رہی ہیں جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی پی ٹی آئی سے وابستہ خواتین کی گرفتاری کے معاملے میں شفافیت اور عمران خان کو جیل میں سہولیات نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے​۔​​​​​​

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ’پی ٹی آئی کی کئی خواتین اور نوجوان کارکنوں سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں دی جا رہی ہیں اور نہ یہ بتایا جارہا ہے کہ انہیں کس مقدمہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔‘

رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ’کئی واقعات تو میڈیا پر رپورٹ ہوچکے ہیں کہ کارکنوں کو پکڑتے ہیں جب بات منظر عام پر آئے تو فوری کسی بھی مقدمے میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔‘

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی جانب سے بدھ کو کہا گیا ہے کہ ’پی ٹی آئی سے وابستہ خواتین کی حراست کے معاملے میں شفافیت کا فقدان اور جیل میں عمران خان کو جائز سہولیات کی عدم دستیابی باعثِ تشویش ہے۔‘

ایچ آر سی پی کا بیان

چیئر پرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) حنا جیلانی کی جانب سے بدھ کو تحریری بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے پی ٹی آئی سے وابستہ خواتین کی گرفتاری کے معاملے میں شفافیت اور عمران خان کو جیل میں سہولیات نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

حنا جیلانی نے سوالات اٹھائے کہ ’پی ٹی آئی خواتین کارکنان کی گرفتاری کو تین ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس وقت جیل میں کتنی عورتیں قید ہیں؟ ان پر الزامات کی نوعیت کیا ہے؟ وہ کہاں قید ہیں؟ انہیں کس عدالت میں پیش کیا جانا ہے؟ اور ان کے ریمانڈ کے لیے چالان جاری ہوئے ہیں کہ نہیں؟

’یہ صورت حال ناقابل قبول ہے۔ ایچ آر سی پی ریاست کو یہ یاد دہانی بھی کروانا چاہتا ہے کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 167 کی رو سے، عورتوں کو سنگین جرائم کے علاوہ کسی اور معاملے ميں ریاستی تحویل میں نہیں رکھا جا سکتا۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو حراست میں لینے کے لیے نہ صرف قانونی طریقہ کار کی پیروی کرے بلکہ ان کی حراست سے متعلق تمام معلومات ظاہر کرے تاکہ زیر حراست لوگ باضابطہ قانونی کارروائی کا حق استعمال کر سکیں۔

’ایچ آرسی پی کو یہ جان کر تشویش ہے کہ یہ ناروا سلوک ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جنہیں ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل نہیں رہتی۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔‘

حنا جیلانی کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایچ آر سی پی کو ان الزامات پر بھی تشویش ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کو اٹک جیل میں ایسے حالات میں رکھا جا رہا ہے جو پاکستان جیل ضوابط 1978 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کو ان الزامات کی تحقیقات کرنی چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ خان صاحب کو وہ تمام سہولیات میسر ہوں جن کے وہ قانون و ضابطے کے لحاظ سے مستحق ہیں۔‘

پی ٹی آئی کا موقف

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایچ آر سی پی کے بیان کو بھی ’محض خانہ پری‘ اور ’ڈھونگ‘ قرار دیا ہے۔

انہوں نے ایچ آر سی پی کے بیان پر کہا کہ ’جب ہماری کارکنان اور رہنماؤں پر ریاستی جبر کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ایچ آر سی پی سویا رہا، خواتین کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کردیا گیا، چادر چاردیواری کا تقدس پامال کر دیا گیا مگر ہیومن رائٹس کمیشن کو خیال نہ آیا۔

’اب کئی ماہ گزرنے کے بعد جب ہماری خواتین کارکنوں سمیت پارٹی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بھی غیر قانونی اقدامات کا سامنا کر رہے ہیں تو انہیں اس پر صرف تشویش ہو رہی ہے؟ یہ سب ’ڈھونگ‘ ہے اور محض ’خانہ پُری‘ کے لیے بیان جاری کر دیا گیا ہے۔‘

ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ ’ساری دنیا جاتنی ہے کس طرح جعلی مقدمات میں ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف ریاستی مشینری استعمال ہورہی ہے اور انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اس پر ہیومن رائٹس کمیشن نے مذمت تک نہیں کی، انسانی حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو بھر پور مزاحمت اور موثر آواز کیوں نہیں اٹھائی جارہی؟‘

محکمہ جیل خانہ جات کا موقف

ترجمان جیل خانہ جات نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کی جیلوں میں خواتین اور مرد قیدیوں کو قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ خواتین وارڈ مکمل طور پر ایک علیحدہ وارڈ ہے جسے ہر لحاظ سے محفوظ رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’خواتین وارڈ کے گیٹ کی اندرونی و بیرونی سائڈ ڈبل لاک لگایا جاتا ہے اور اندرون لاک کی چابی فی میل آفیسر کے پاس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی تمام تر انتظامی امور کی ذمّہ داری لیڈی ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ، لیڈی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، لیڈی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور لیڈی ڈاکٹر سمیت فی میل سٹاف کی ہوتی ہے۔ کسی میل ممبر کو خواتین وارڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح خواتین وارڈر ہر لحاظ سے انتہائی محفوظ ہے۔ تمام خوتین کو ان کی پیشی کے مطابق عدالتوں میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔‘

ترجمان جیل خانہ جات پنجاب کے بقول: ’جہاں تک عمران خان کو دی جانے والی سہولیات کی بات ہے تو وہ ہم پہلے ہی سیشن جج اٹک کی جانب سے جاری کردہ ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے دورے کی رپورٹ کے بعد وضاحت جاری کر چکے ہیں جس میں بتایا گیا کہ ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں مقید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو پاکستان پریزنز رولز 1978 کے رول 257 اور 771 کے مطابق تمام تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔‘

ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عمران خان کے لیے ان کے کمرے میں بروز ہفتہ نیا واش روم تعمیر کیا گیا ہے، جس میں ویسٹرن کموڈ اور واش بیسن لگائے گئے ہیں۔ واش روم میں نہانے کا صابن، پرفیوم، ایئر فریشنر، تولیہ اور ٹیشو پیپر بھی موجود ہیں۔ واش روم کی دیواریں پانچ فٹ اونچی رکھی گئی ہیں اور باتھ روم کو نیا دروازہ لگایا گیا ہے اس کے ساتھ ان کو قانونی طور پر جن سہولیات کی اجازت ہے وہ میسر ہیں۔‘

عدالتی ریکارڈ کے مطابق خواتین قیدیوں کی تعداد

عدالتی ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی منسوب نو مئی کے واقعات میں ملوث قرار دی گئی خواتین رہنماؤں اور کارکنان میں عالیہ حمزہ، یاسمین راشد، طیبہ گل، خدیجہ شاہ، روبینہ جمیل، مریم مزاری، عائشہ بھٹہ، صنم جاوید، صبوحی عمران و دیگر شامل ہیں جو ان دنوں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دیے گئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

ان خواتین کی لاہور ہائی کورٹ میں ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت بھی جاری ہے۔ ان خواتین کو پولیس پیشی پر عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

پولیس حکام اور محکمہ جیل خانہ جات کی جانب سے پی ٹی آئی کی جیلوں میں قید خواتین کی مکمل تعداد کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئیں البتہ ترجمان پی ٹی آئی نے دعوی کیا ہے کہ کئی خواتین ایسی گرفتار کی گئی ہیں جن کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین