ملکی تاریخ میں پہلی بار انٹربینک میں ڈالر کی ٹرپل سینچری

کاروباری ہفتے کے چوتھے روز انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں 61 پیسے کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد امریکی کرنسی 300 روپے 25 پیسے کی سطح پر ٹریڈ کر رہی ہے۔

ایک کرنسی ڈیلر 19 جولائی 2022 کو کراچی کی ایک کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالر گن رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آج کاروباری ہفتے کے چوتھے روز انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں 61 پیسے کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انٹربینک میں امریکی ڈالر 300 روپے 25 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔

گذشتہ روز کاروباری دن کے اختتام پر انٹربینک میں ڈالر 299 روپے 64 پیسے پر بند ہوا تھا۔

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈالر کی قیمت میں اضافہ پہلے سے نظر آرہا تھا۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جن سخت شرائط پر قرض لیا ہے، اس کے اثرات مارکیٹ میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

’مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار زیادہ ہیں اور فروخت کرنے والے کم ہیں جبکہ ایل سیز کے لیے امپورٹرز مارکیٹ میں ڈالر تلاش کر رہے ہیں، ایسے میں گرے مارکیٹ فعال ہوگئی ہے اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے منہ مانگے ڈالر وصول کر رہے ہیں۔‘

ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نگران حکومتوں کے دور میں ڈالر ریٹ بڑھ جانے کی روایت رہی ہے۔ ’گذشتہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو کم رکھا ہوا تھا اور جیسے ہی حکومت کی آئینی مدت ختم ہوئی اور نگران حکومت آئی تو ڈالر اپنی فطری قیمت پر آ گیا۔ دوسری وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں بھی 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔‘

بقول ظفر پراچہ: ’آئی ایم ایف کا مسلسل دباؤ ہے کہ درآمدات (امپورٹس) کھولی جائیں۔ جب ہمارے پاس ڈالر ہی نہیں تو ایسے میں امپورٹس کھولنے سے ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ متوقہ ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں غیر ملکی زر مبادلہ (فارن ایکسچینج) کے حوالے سے قوانین کو سخت کیا گیا، یہی غلطی سری لنکا نے کی تھی، جس سے ان کے ہاں بھی فارن ایکسچینج مارکیٹ خشک ہو گئی تھی، اسی طرح ہمارے یہاں بھی ہوا ہے۔ سارے ڈائنامکس ہی غلط ہو گئے تو یہ بنیادی وجوہات ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ظفر پراچہ کے مطابق: ’ملک میں عام انتخابات تاخیر سے ہونے کی افواہوں اور سیاسی غیر یقینی بھی ڈالر کی قیمت میں اضافے کا باعث ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے ڈالر کی قیمت میں کمی آئے اور وہ مارکیٹ سے نکل کر ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں میں آئے۔ اس کے لیے ایکسچینج کمپنیز پر نومبر 2022 میں جو پابندیاں لگائی گئی تھیں، انہیں ختم ہونا چاہیے۔‘

کراچی میں مالیاتی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار اشرف خان نے انڈپینڈنٹ اردو  کو بتایا کہ نگران حکومت آنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ متوقع تھا اور اس کے اثرات ہر شعبے میں نظر آئیں گے۔

’پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد عوام کے لیے پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ اشیائے خورونوش سمیت دیگر اشیا باہر سے درآمد کی جاتی ہیں۔ ڈالر میں اضافے کے ساتھ ہی ان تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور عوام براہِ راست متاثر ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈالر ریٹ بڑھنے سے پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھتی ہیں، پیٹرولیم کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور بجلی کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور بجلی اور گیس کے مہنگے بل ادا کرنے والے شہریوں کو ہر شے پر اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت