صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں پولیس نے 23 اگست کو سرکاری ہسپتال خیبر ٹیچنگ (کے ٹی ایچ) کے واش روم سے نوجوان خاتون ٹیکنیشن کی لاش برآمد ہونے کے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم سی) میں حلیمہ نامی خاتون کا پوسٹ مارٹم ہونے کے بعد ان کی لاش گذشتہ شام ان کی فیملی کے حوالے کر دی گئی تھی جس کے بعد ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں پبی (نوشہرہ) میں 24 اگست کو ادا کر دی گئی ہے۔
ٹاؤن پولیس سٹیشن کی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے سے متعلق ایس ایچ او ابراہیم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد طے کیا جائے گا کہ آیا ’ایف آئی آر درج ہونی چاہیے یا کیس یہیں ختم کیا جائے۔‘
ایس ایچ او ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ ’جب کوئی لاش برآمد ہوتی ہے اور وجہ قتل معلوم نہیں ہوتا، تو ایسے کیسز میں ایف آئی آر کی بجائے پولیس دفعہ 174 کے تحت فوری انکوائری بٹھاتی ہے۔‘
’اگر پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ثابت ہوتا ہے تو تب پولیس پر 302 سمیت دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ فی الحال ہم پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی دفعہ 174 پولیس کو اختیارات دیتی ہے کہ وہ غیرطبعی موت کی تحقیقات کر کے اس کی وجہ معلوم کرے۔
ایس ایچ او ابراہیم خان کہتے ہیں کہ اگرچہ مرنے والی خاتون کے خاندان والوں نے پولیس سے کوئی رابطہ نہیں کیا، تاہم پولیس مکمل چھان بین کر رہی ہے۔
’ہم اس سلسلے میں موبائل ڈیٹا بھی حاصل کر رہے ہیں، جس میں کالرز اور پیغامات کا جائزہ لیا جائےگا۔‘
دوسری جانب، خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ڈائریکٹر ظفر آفریدی نے واقعے کے فوراً بعد ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر انہیں تین دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی میں ہسپتال کی سکیورٹی، لیگل، طبی یونٹس سمیت فارنزک لیب کے ارکان شامل کیے گئے ہیں۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے میڈیا آفیسر سجاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حلیمہ بی بی کی عمر 25 سال تھی اور وہ پچھلے دو سال سے انڈسکوپی یونٹ میں بطور ٹیکنیشن ملازمت کرتی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ روز صبح تقریباً ساڑھے نو بجے حلیمہ واش روم گئیں اور غیرمعمولی تاخیر پر ساتھیوں نے پہلے کافی دیر دستک دی۔ تاہم کوئی جواب نہ ملنے پر دروازہ توڑا گیا، جہاں وہ بےجان زمین پر پڑی تھیں۔‘
سجاد خان کے مطابق، یونٹ کے ایک ساتھی نے انہیں فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ پہنچایا، جہاں ڈاکٹرز نے خاتون کو مردہ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بعد ازاں لاش قریبی طبی کالج کے ایم سی کی فارنزک لیب پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دی گئی جبکہ ان کی فیملی سے بھی رابطہ کیا گیا۔‘
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے میڈیا آفیسر نے بتایا کہ ’ان کے والد ہسپتال پہنچے تو صدمے سے خاموش ہو گئے اور وہ کچھ نہیں بول پا رہے تھے۔ تب ہم لاش چھوڑ کر انہیں تسلی دینے لگے۔‘
’گذشتہ شام وہ خاموشی سے لاش لے گئے۔ ابھی تک فیملی کی جانب سے نہ کوئی رابطہ ہوا ہے نہ کوئی احتجاج اور نہ ہی کسی پر کوئی الزام لگایا گیا ہے۔‘
میڈیا آفیسر کہتے ہیں کہ ’واقعے کے بعد پولیس کو جائے وقوعہ سے ایک سرنج ملی ہے، جبکہ فارنزک لیب والوں کو ڈیڈ باڈی پر جگہ جگہ انجکشن کے نشانات بھی ملے ہیں، جس کے بعد ڈاکٹروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ موصوفہ منشیات کے استعمال میں ملوث ہو سکتی ہیں۔ تاہم حتمی رپورٹ کا انتظار ہے۔‘
دوسری جانب، کے ٹی ایچ کے انڈسکوپی یونٹ میں حلیمہ کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ’خاتون ایک کم گو اور نہایت اچھے اخلاق کی مالکہ تھیں اور روزانہ پبی سے پشاور ملازمت کے لیے آتی تھیں۔‘
خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں انکوائری کمیٹی کے انچارج ڈاکٹر عمر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد پورا یونٹ سوگوار ہے اور حلیمہ کی نماز جنازہ میں شریک ہونے اور فاتحہ پڑھنے کے لیے نوشہرہ گیا ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی آج فاتحہ پڑھنے گئے، تاہم اس دوران حلیمہ کے والد اور بھائیوں نے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے انصاف کا تقاضا کیا۔
ڈاکٹر عمر کا کہنا ہے کہ ابھی حلیمہ کے موت کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، اور کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کون سے عوامل تھے جو خاتون کے موت کا سبب بنے۔