’اینیمیشن بنانے کے بعد مجھے انٹرنیٹ کے لیے چار کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا کیونکہ ہمارے علاقے میں انٹرنیٹ کام نہیں کرتا۔ تب جا کر 10 روز بعد فائل رینڈر ہوئی اور میں نے اس کو مقابلے کے لیے بھیج دیا۔‘
یہ کہنا تھا شمالی وزیرستان کے علاقے سپین وام سے تعلق رکھنے والے کامران خان کا، جنہوں نے اینیمیشن میں ایک عالمی ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔
تائیوان کی گیمنگ ٹیکنالوجی کی کمپنی ماسٹر سٹار انٹرنیشنل (ایم ایس آئی) کے زیر اہتمام ہونے والے مقابلے میں پوری دنیا سے تین کیٹیگریز میں نوجوان نے حصہ لے سکتے تھے۔
ایم ایس آئی دنیا کے 120 ممالک میں اپنی پراڈکٹس بیچتی ہے۔
کامران خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اینیمیشن میں تجربہ اور شوق کی کہانی جنوری 2021 میں اس وقت شروع ہوئی جب انہیں بڑے بھائی لیپ ٹاپ خرید کر دیا۔
’لیپ ٹاپ ملنے کے بعد میں سوچتا تھا کہ کس فیلڈ میں سیکھنا شروع کروں۔ سرچ کے نتیجے میں اینیمیشن کی دنیا میں تجربہ حاصل کرنے کا شوق بڑھا اور اسی پر کام شروع کیا۔‘
شمالی وزیرستان کے ایک نجی کالج میں دسویں جماعت کے طالب علم کامران خود کو فری لانس اینیمیٹر کہتے ہیں اور تھری ڈی اینیمیشن کے علاوہ ویژول ایفیکٹس اور سی جی آئی میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
اینیمیشن کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد کامران خان نے یو ٹیوب پر فر سافٹ ویئرز کی تلاش شروع کی اور انہیں بلینڈر نام کا سافٹ ویئر ملا، جس میں انہوں نے اینیمیشن سیکھی۔
’سیکھتے سیکھتےایک سال بیت گیا اور نومبر 2022 میں میرا سامنا سوزا پراڈکشن نامی سٹوڈیو سے ہوا اور ان کے بہت سارے پراجیکٹس پر کام کیا۔ یہ ویژول ایفیکٹس اور سی جی آئی کا سٹوڈیو ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کامران کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے، انٹرنیٹ اتنا سست ہے کہ ایک عام سی ویب سائٹ کھولنا بھی کھل نہیں پاتی۔
’اینیمیشن اور اس سے ویب سائٹس بھاری ہوتی ہیں اور ان کے لیے کی سپیڈ زیادہ چاہیے ہوتی ہے۔‘
اپریل 2023 میں کامران نے ایم ایس آئی کے زیر اہتمام ایک مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے سائنس فیک کی دنیا میں اینمیشن بنانے کا ارادہ کیا۔ ’مجھے یہ اینیمیشن بنانے میں ایک مہینہ لگا۔‘
کامران خان کا کہنا تھا: ’اینیمینش بنانے کے لیے جب مجھے تیز انٹرنیٹ چاہیے ہوتا تو میں تقریباً چار کلومیٹر دور دوسرے علاقے جاتا۔ بلکہ اپنی اینمیشن تیار کرنے کے بعد اسے رینڈر کرنے میں مجھے دس دن لگے تھے۔‘
ایم ایس آئی کی ویب سائٹ کے مطابق ایوارڈ جیتنے والوں میں 70 ہزار امریکی ڈالر(تقریباً دو کروڑ روپے) تقسیم کیے جائیں گے۔
کامران کے والد ایک مزدور ہیں، جبکہ اینیمشن کی تیاری کے دوران بڑا بھائی انہیں موٹرسائیکل پر چار کلومیٹر دور کے جا کر انٹرنیٹ تک پہنچاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے میں سست انٹر نیٹ کے علاوہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ایک سنگین مسئلہ تھا جس سے ان کا کام متاثر ہوتا۔ ’ہمارے علاقے میں صرف ایک دو گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے اور باقی وقت بجلی کے انتظار میں گزر جاتا ہے۔‘