یہ سال 2018 کی بات ہے جب بلوچستان میں جام کمال خان وزیراعلیٰ بنے اور انہوں نے کوئٹہ میں سریاب روڈ اور اس سے ملحقہ سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا، جس سے لوگوں کو امید ہو چلی تھی کہ اب انہیں بھی جدید دور کے مطابق سڑکیں ملیں گی اور سریاب روڈ کی طوالت بھی کم ہوگی۔
لیکن یہ منصوبہ ایک حکومت اور دو وزرائے اعلیٰ کی مدت پوری ہونے کے باوجود تاحال مکمل نہیں ہو سکا بلکہ اب تک محض 40 فیصد کام ہی ہو سکا ہے۔
’کوئٹہ پیکج‘ کے نام سے شروع کیے گئے اس منصوبے میں سریاب روڈ اور سبزل روڈ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سریاب کو مشرقی اور مغربی بائی پاس سے منسلک کرنا شامل ہے تاکہ سریاب کی طویل شاہراہ پر ٹریفک جام کو کنٹرول کیا جاسکے، لیکن جام کمال کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ منصوبے سست روی کا شکار ہوا اور طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ایک سڑک بھی مکمل نہ ہوسکی۔
دوسری جانب نامکمل تعمیراتی کام سے شہریوں کو صبح و شام ٹریفک جام اور دھول مٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محکمہ ماحولیات بلوچستان کے ٹیکینکل ڈائریکٹرمحمد خان اوتمانخیل کہتے ہیں کہ اس وقت کوئٹہ کا سب سے بڑا مسئلہ دھول مٹی کی آلودگی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس آلودگی کی وجوہات بھی ہم نے معلوم کی ہیں، ایک تو کرش پلانٹ جو کوئٹہ شہر میں کام کر رہے تھے، جنہیں ہم نے بند کروا دیا۔ دوسرا منصوبہ بندی کے بغیر ہونے والے ترقیاتی کام، جن کے تحت سڑکوں کی تعمیر ہو رہی ہے، جس میں سریاب روڈ، سبزل روڈاور مغربی بائی پاس ہے۔
’یہ تمام اس وقت کھدائی کے مرحلے میں ہیں، مٹی ڈالی اور نکالی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے گاڑیوں کے گزرنے سے دھول اٹھتی ہے جبکہ سڑکوں کی سائیڈ بھی پختہ نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ان پر درست طریقے سے پانی بھی نہیں چھڑکا جا رہا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد خان کہتے ہیں کہ ’یہ سڑکیں ہماری ضرورت بھی ہیں۔ جب یہ بنیں گی تو آلودگی بھی کم ہوگی، مواصلاتی رابطے بہتر ہوں گے۔ ہم ان کو بند بھی نہیں کرسکتے، ترقیاتی کام ہے، اس میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ آلودگی کم ہو، جس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب کوئٹہ کے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنے والے چیف منسٹر کوئٹہ پیکج فار سٹی ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر رفیق احمد کہتے ہیں کہ انہوں نے ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے کے ساتھ ترقیاتی کام تیز کر دیے ہیں۔
رفیق احمد نے بتایا: ’کوئٹہ کی ترقی کے لیے میگا پروجیکٹس کا سلسلہ 2018 میں شروع ہوا، اس وقت وزیراعلیٰ جام کمال تھے، جنہوں نے اس پر کافی توجہ دی، اس کے بعد وہ چلے گئے، پھر میر عبدالقدوس بزنجو آگئے، لیکن کام میں سست روی شروع ہوگئی، جس کے باعث سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اس پر توجہ دینا شروع کی اور کام کی رفتار تیز ہوگئی۔
’اب ہم نے سخت نگرانی شروع کر دی ہے اور ہفتہ وار ہدف دینے کے باعث تمام منصوبے تکمیل کی طرف گامزن ہیں۔ اگر ہم ایک ایک کرکے دیکھیں تو سریاب روڈ میں کیریج وے اور سپالٹنگ کا کام مکمل ہوگیا ہے، کچھ یوٹرن اور دوسری جگہوں پر کام جاری ہے۔‘
رفیق احمد نے دھول کے خاتمے کے حوالے سے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سپالٹنگ کے کام کو پہلے کرلیں اور باقی کام بعد میں ہوں۔ ’اسی مںصوبہ بندی کے تحت ہم نے بہت حد تک کام کو مکمل کر لیا ہے تاکہ دھول کو کم سے کم کیا جاسکے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر حکومت نے یہ منصوبہ شروع کیا، اس میں ہم نے کافی چیزیں سیکھ بھی لی ہیں کہ کس طرح مسائل کو حل کرنا ہے۔
’سریاب روڈ (کی تعمیر) میں بڑی مشکلات تھیں۔ یہاں کمرشل پلازے تھے، سرکاری اور نجی عمارتیں تھیں، آج وہ کام کلیئر ہو گیا ہے، اس میں ہم نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے کہ ایک پورشن لیں اور اسے مکمل کریں تاکہ مالی مسائل بھی نہ ہوں اور لوگوں کو بھی پریشانی نہ ہو۔‘
رفیق احمد نے ان منصوبوں کی لاگت کے حوالے سے بتایا کہ اس میں مزید اضافہ نہیں ہوا، سارے چھوٹے بڑے پروجیکٹس ملا کر یہ 32 ارب روپے کا منصوبہ ہے، جس میں ہم نے ابھی تک 40 فیصد کام کیا ہے یعنی صرف 12 ملین کا کام ہوا ہے اور باقی 60 فیصد کام ابھی باقی ہے۔