ہم نے اپنے بچپن سے کراچی میں بریڈ فورڈ کی ایسی بسوں میں سفر کیا ہے جس پہ بڑے طرے سے ماڈل 1960، 1950 لکھا ہوتا ہے۔ ان بسوں کا انجن جو آگے ڈرائیور کے ساتھ والی جگہ پہ ہوتا ہے وہاں ہی خواتین کی نشستیں ہوتی ہیں۔
ستم یہ کہ انجن جو ایک بڑا باکس نما سا لگتا ہے اس کے اوپر بھی جلی پھٹی فوم چپکا کر اوپر سے ربڑ کی شیٹ لگا کر اس انجن کے اوپر کا چوکور حصہ بھی بطور نشست استعمال ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب بس میں رش بڑھتا تھا تو اس گرم انجن کے اوپر بنی نشست پہ بھی چاروناچار بیٹھنا پڑتا ہے۔
اس جہنم کی آگ کی طرح تپتے انجن والی نشست پہ بیٹھ کر دل میں یہی خیال آتا تھا کہ کوئی ہم کراچی والوں سے بھی زیادہ بدنصیب ہو گا کہ جو گرمیوں میں بھی ٹکٹ دے کر اس سلگتے توے پہ بیٹھتے ہیں اور روتے پیٹتے اپنی سفر کے تمام ہونے کی گھڑیاں گنتے ہیں۔
بٹگرام کے بچوں کو دیکھ کر اندازہ ہوا ہاں ہم کراچی والوں سے زیادہ کوئی اتنے بدنصیب بھی ہیں جو جان ہتھیلی پہ رکھ کر روزانہ سکول جاتے ہیں، جو جدت و بے پناہ وسائل کے اس دور میں بھی رسیوں پہ لٹکتی ڈولی میں جھول رہے ہوتے ہیں، زمین جن سے کئی سو فٹ نیچے ہوتی ہے اور آسمان قریب۔ دور سے دیکھو تو دھاگے کی طرح نظر آنے والی رسیاں جن پہ لوہے کے جنگلے لٹکتے ہوئے جاتے ہیں اور سواریوں کو وادی کی دوسری جانب اتار دیتے ہیں۔
اس مقامی انجینیئرنگ کے شاہکار کو کیبل کار، کیبل لفٹ یا ڈولی جو چاہے نام دیں، یہ جیسے بنایا اور لٹکایا جاتا ہے حادثات بہرحال اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے بٹگرام کے علاقے میں ٹنگی ہوئی کیبل لفٹ کا سانحہ تو انسانی بہادری کے باعث ٹل گیا اور آٹھ افراد، جن میں زیادہ تر بچے تھے، ان کی جانوں کو بچا لیا گیا لیکن یہ حادثہ کئی سوال جنم دے گیا، وہ سوال جنہیں ہم یونہی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چلو چھوڑو جانے دو، گاڑی جیسے تیسے چل تو رہی ہے۔
کیبل کار کے مسافر روزروز حادثوں کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ مشن امباسبل کی طرح کوئی ایڈوینچر تھرلر نہیں کہ جہاں ٹام کروز کی طرح کا کوئی ہیرو موت کو شکست دے دے۔ یہ مقامی مرد و زن اور بچے گھروں سے اپنا دن معمول کے مطابق گزارنے نکلتے ہیں، ہاں لیکن موت کی کھائی کے اوپر سے ڈولی والی لفٹ میں سفر کرنا ان کے معمول کا ایک حصہ ہے۔
بٹگرام ریسکیو آپریشن صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں انسانی بہادری اور بے لوث جذبہ بھی کام آیا اور بغیر کسی نقصان کے تمام افراد کو بچالیا گیا۔ بدقسمتی سے ہماری قوم کی تقسیم اس حد تک ہو گئی ہے کہ ایک ریسکیو آپریشن پہ بھی سراہنے والوں کی ٹولیاں بن گئی ہیں۔ فوجی جوانوں نے بچایا، مقامیوں نے بچایا یا دونوں نے مل کر بچایا، تھے تو سب ہی پاکستانی۔
سوال تو یہ ہونے چاہیے کہ کیا الائی بٹگرام کے مقامیوں کو یہ سوزوکی کے خول سے بنی ڈولی ہی نصیب ہے؟ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں درجنوں کچے پکے پُل ہیں، اور مقامیوں کی بنائی ہوئی کیبل لفٹس ہیں کن ریگولیشنز کی تحت چلتی ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی فٹنس کا سرٹیفیکشن کیسے ہوتا ہے؟ کیا نصف شب ہونے والی ایمرجنسی میں بھی ایسے ڈولیاں ہی کام آتی ہیں؟ اور سب سے اہم سوال تو یہ کہ ان سوالوں کے جواب جسے دینے چاہییں اس صوبائی اور مقامی حکومت کو جواب دہ کون کرے گا؟
انتظامیہ نے کیبل کار کے مالک اور ایک ملازم کو تو سلاخوں کے پیچھے پہنچا کر ان کی تصویر بھی جاری کروا دی ہے، مگر کوئی یہ پوچھنے والا بھی ہے کہ یہ کیبل کار سالہاسال سے کس کی اجازت سے چل رہی تھی، اس کا کب کب معائنہ ہوا، کس نے معائنہ کیا، اس کی رپورٹ کہاں ہے؟ اگر نہیں ہے تو کس نے غفلت برتی ہے، کیا انہیں کبھی کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھا جائے گا؟
سب سے بڑھ کر یہ سوال ہے کہ کیا پچھلے 25، 30 برس کی صوبائی حکومتوں سے بھی کوئی پوچھے گا کہ انہوں نے اپنے صوبے میں سینکڑوں کی تعداد میں چلنے والی کیبل کاروں کی تنصیب اور لائسنسنگ کے لیے کیا طریقۂ کار وضع کیے یا قانون سازی کی، جس سے یہ یقینی بنایا جا سکتا کہ ان میں سفر محفوظ ہو؟
سڑکوں اور پلوں کے نیٹ ورک کی عدم دستیابی اور محدود انفرا سٹرکچر کی وجہ سے ایسی کیبل کاریں اکثر شمال کے کچھ پہاڑی حصوں، خاص طور پر کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں سفر کرنے کا واحد دستیاب ذریعہ ہوتی ہیں۔
ایک گاؤں سے سڑک یا دوسرے گاؤں کے درمیان گہری کھائی کی وجہ سے کئی گھنٹوں کا کمر توڑ سفر کیبل کار کی مدد سے چند منٹوں میں سہولت سے طے ہو جاتا ہے۔ کیبل پہ لٹکی یہ ڈولیاں خطرناک ضرور ہیں لیکن ظاہر ہے کہ خاص طور پر ضعیف افراد اور خواتین اور بچوں کے لیے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ یہ کیبل کاریں اگر حکومت حفاظتی انتظامات کے ساتھ بناتی تو کوئی بات تھی۔ انہیں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت لوہے کی ویلڈنگ کر کے بناتے ہیں۔
لیکن یہ عمل کسی بھی طرح کے معائنے یا لائسنس کے بغیر ہونے لگا۔ پھر چند حادثے ایسے ہوئے جن میں کمزور رسوں اور ناقص مشینری کی وجہ سے جانیں ضائع ہونے لگیں۔ خاص طور پر بٹگرام کے قریب گجبوڑی میں ہونے والے ایک حادثے میں ایک درجن کے لگ بھگ لوگ جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اب حکام کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے سرکاری منظوری کے بغیر کیبل کار کی تنصیب اور آپریشن پر پابندی لگا دی۔ اب لوگ زیادہ بہتر آہنی رسے استعمال کرنے لگے، لیکن جیسا کہ ہوتا آیا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سختی بھی کم ہوتی چلی گئی۔ سڑکوں کے قریب والے علاقوں میں تو پھر بھی گزارا تھا، مگر دور دراز علاقوں میں کون چیکنگ کرے اور کروائے۔ اس لیے رفتہ رفتہ وہی حالات پیدا ہو گئے، جن کا لازمی نتیجہ الائی والے واقعے کی صورت میں نکلا۔
دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا جو کب سے واقع ہونے کا منتظر تھا، بس شکر ہے کہ بات 14 گھنٹوں کی تکلیف پر کٹی، زندگیاں بچ گئیں، ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
آٹھ افراد موت و زیست کی کشمکش میں لٹکے رہے لیکن ایک اہم مسئلے کی جانب ہم سب کی توجہ دلا گئے۔ مواصلاتی نظام بنانا سراسر ریاست اور حکومتی اداروں کا کام ہے۔ اگر کسی علاقے کے بچوں کو سکول جانے یا خواتین کو ہسپتال جانے کے لیے کئی گھنٹے لگتے ہیں تو یا تو سکول اور ہسپتال قریب لائے جائیں یا پھر ان لوگوں کو سفر کی آسان سہولت دی جائے۔
مقامی انتظامیہ کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کیبل کاریں، ڈولیاں وغیرہ کے ڈھانچے کا باقاعدہ سالانہ معائنہ ہو، انہیں فٹنس کے مطابق آپریشنز کا لائسنس ملے مزید یہ کہ ریاست بنیادی سہولیات جیسے کہ اسکول، کلینک وغیرہ کی بستیوں کے قریب فراہمی ممکن بنائے۔ اگر آپ سے دور دراز علاقوں میں راتوں رات سڑکیں اور پُل بنانا ممکن نہیں تو موجودہ کیبل کار کے نظام کو ہی محفوظ بنا لیں۔
اگرچہ ریسکیو کی جرات مندانہ کوششوں میں شامل تمام افراد تعریف کے مستحق ہیں لیکن ہمارے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اور ریسکیو آپریشنز میں ہمارے لوکل اداروں کی مہارت کا بھی سوال ہے۔ بات بات پہ فوج بلانے کے بجائے مقامی ریسکیو ورکرز کو ہی ایسے حادثات کے لیے تیار کرنا اور انہیں ریسکیو کے جدید آلات دینا ضروری ہے۔
یہ واقعہ ریسکیو پہنچنے میں کئی کئی گھنٹے کے انتظار پہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیبل لفٹ میں پھنسے افراد کو واپس زمین تک لانے میں 14 گھنٹے لگ گئے جس میں زیادہ وقت تو مدد کے پہنچنے میں ہی صرف ہوا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔