توشہ خانہ کیس میں گرفتار اور اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔
جمعے کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے اسسٹنٹ نے عدالت کو بتایا کہ وہ بیمار پڑ گئے ہیں اور عدالت کے سامنے دلائل کے لیے پیش نہیں ہوسکتے۔
عدالت نے امجد پرویز کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے۔
توشہ خانہ نااہلی ریفرنس فیصلہ کیا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی بینچ نے 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں کہا گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے غیر واضح بیان جمع کروایا، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن137 (اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کروانا)، سیکشن167 (کرپٹ پریکٹس) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروانا) کی خلاف ورزی کی ہے، اور یوں وہ الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کی تھی۔
توشہ خانہ ریفرنس کس نے دائر کیا تھا؟
رواں برس چار اگست کو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محسن نواز رانجھا نے حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قانونی ماہرین کے دستخطوں کے ساتھ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تخائف کی تفصیلات شیئر نہ کرنے پر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین پاکستان کے آرٹیکلز 62 اور 63 کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں سرکاری تحائف کو بیرون ملک بیچنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا، جبکہ تمام دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس کے ہمراہ جمع کرائے گئے تھے۔
’آپ سزا معطلی کے لیے تیار ہی نہیں ہیں،‘ کیس کی سماعت کا آنکھوں دیکھا حال
جہاں گذشتہ روز دوسرے فلور پر واقع کمرہ عدالت میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی وہاں آج صورت حال اس کے برعکس تھی اور کمرہ عدالت میں بھیڑ نظر نہیں آ رہی تھی۔
سماعت اپنے مقررہ وقت ساڑھے 11 بجے کی بجائے 20 منٹ تاخیر سے شروع ہوئی۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سزا معطلی کے خلاف کیس کی سماعت کے آغاز میں الیکشن کمیشن کے معاون وکیل اور عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آ گئے۔
معاون وکیل نے چیف جسٹس عمر فاروق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی طبیعت آج بہت خراب ہے، وہ پیش نہیں ہو سکتے۔ معاون وکیل کے یہ کہنے کے بعد کمرہ عدالت کا ماحول تبدیل ہوتا نظر آیا۔
اس دوران عمران خان کی بہنیں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
چیف جسٹس معاون وکیل پر برہم ہوئے اور کہا، ’یہ کیا طریقہ ہے؟ امجد پرویز کیوں پیش نہیں ہوئے؟‘ معاون وکیل نے کہا کہ ’گذشتہ روز سماعت کے دوران بھی امجد پرویز بیمار تھے، جب سماعت میں وقفہ ہوا تو اس دوران انہوں نے دوائی لی تھی۔ جس کے بعد وہ دوبارہ پیش ہوئے۔ جبکہ آج وہ بالکل پیش نہیں ہوئے کیونکہ ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا، ’ضمانت کا معاملہ چل رہا ہے یہ غلط بات ہے۔‘ معاون وکیل نے جواب دیا، ’ایسے حالات تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں۔‘
اس دوران وکیل لطیف کھوسہ غصے میں آ کر بولے، ’جی نہیں، ایسا کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا، میری کل طبیعت خراب تھی مگر میں پھر بھی آیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا، ’یہ انتہائی غلط اقدام ہیں، کل 10 منٹ کے دلائل دینے ہیں۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا، ’یہ بھی سینیئر وکیل ہیں اور وکالت نامہ بھی ہے، الیکشن کمیشن کے اپنے وکلا موجود ہیں۔‘
لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، ’ہم نے صرف معاونت کرنا ہے، باقی آپ اللہ کو جوابدہ ہیں، ایک شخص 20 روز سے اندر پڑا ہے۔ خدارا اس ادارے کو اتنا خراب نہ کریں کہ آپ کے ماتحت آپ کی بات کو نہ مانیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا، ’جمعے کے روز ڈویژن بینچ نہیں ہوتا، ہم نے صرف اس معاملے کے لیے کیس رکھا۔‘
لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے کہا، ’آپ نے جو کرنا ہے کریں، ہم آپ کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔ آپ سزا معطلی کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں، یہ ایک جیل میں پڑے شخص کی زندگی کی تیں دن مانگ رہے ہیں۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا، ’سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ اس کیس میں سقم موجود ہیں۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا، ’ٹرائل کورٹ نے جو کیا غلط کیا۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا، ’آپ نے جو کرنا ہے کریں، جو فیصلہ آپ نے کرنا ہے کریں۔‘
اس کے بعد چیف جسٹس نے 28 اگست تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
بینچ کے اٹھنے کے بعد پی ٹی آئی وکلا نے کمرہ عدالت میں ’فکسڈ بینچ نامنظور‘ اور ’فکسڈ میچ نامنظور‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
لطیف کھوسہ لفٹ میں پھنس گئے
سماعت ملتوی ہونے کے بعد پی ٹی آئی قانونی ٹیم کے 18 سے 20 وکلا کے ہمراہ یوٹیوبر کمرہ عدالت سے نکل کر لفٹ میں آ گئے۔ تقریباً پانچ منٹ کے بعد ایک دم سے شور مچا کہ وکیل لطیف کھوسہ اپنے معاونین کے ہمراہ لفٹ میں پھنس گئے ہیں۔ اس دوران لفٹ کے باہر پی ٹی آئی کے حامی وکلا نعرے لگانا شروع ہو گئے۔
میں نے اس دوران ساتھی صحافی عنبرین علی سے پوچھا کہ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ’یہ لفٹ اس سے قبل متعدد مرتبہ خراب ہو چکی ہے۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ پھنس گئے ہیں۔‘
ساتھی وکیل کے ریسکیو 1122 کو اطلاع کے بعد ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔
تقریبا 20 منٹ گزرنے کے بعد ریسکیو ٹیم اور کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اہلکار لفٹ کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے اور تقریبا سات منٹ کے اندر لفٹ کو دوسرے فلور پر ہی کھول لیا گیا۔ وکیل لطیف کھوسہ جن کی طعبیت کی خرابی سے متعلق کمرہ عدالت میں ہی بتایا جا رہا تھا، لفٹ سے پسینے میں شرابور وکلا کے ہمراہ نکلے۔ ان کے ساتھ آٹھ سے 10 یوٹیوبر بھی لفٹ سے نکلے۔
لطیف کھوسہ متعدد وکلا کے ہمراہ جو گیٹ تک ان کے حق اور عدالت کے خلاف مختلف نعرے لگاتے رہے، اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔
ہمارے ساتھ کھڑے ریسکیو ٹیم کے اہلکار سے پوچھا کہ لفٹ کی خرابی کا پتہ چلا جس پر انہوں نے بتایا کہ ’لفٹ اوور ویٹ ہونے کی وجہ سے پھنس گئی تھی۔‘
اس واقعے کے کچھ دیر بعد ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان میمن بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔