سپریم کورٹ میں توشہ خانہ سے متعلق درخواستوں کی سماعت ملتوی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار عمران خان کی جیل میں حالت زار سے متعلق تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں۔
جمعرات کو عدالت نے مختصر سماعت میں کہا کہ ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے ’ہم ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے اس کے بعد کیس کی سماعت کریں گے۔‘
سپریم کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کو جیل میں دی گئی سہولیات پر رپورٹ طلب کی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’ہائی کورٹ کا کیس کو سننا ہمارے نظام کی خوبصورتی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے دیں دیکھیں ہائی کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ممکن ہے ہائی کورٹ ریلیف دے دے۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا اپ نے ہائی کورٹ کے سامنے تمام اعتراضات اٹھائے۔ تو عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ’بالکل میں نے ہائی کورٹ کے سامنے تمام حقائق رکھے ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پہلے آپ کو کوئی سن نہیں رہا تھا اب سن رہے ہیں۔‘
توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی سزا معطلی اور سزا کے خلاف اپیل پر آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ سماعت کر رہا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چار اگست کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے متعلق عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ میں چار اگست کے ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں 23 اگست کو سماعت کے لیے مقرر ہوئی تھیں۔
اپنی سزا کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعدد اور سپریم کورٹ سے تین بار رجوع کیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے مرکزی کیس کی سماعت اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ہوئی تھی۔
اس کے بعد مقامی عدالت کے مختلف فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئے، جن میں کیس کے قابل سماعت ہونے، ٹرائل روکنے، جج تبدیل کرنے، 342 کا بیان روکنے، حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست اور ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواستیں شامل ہیں۔
توشہ خانہ فوجداری ٹرائل میں سیشن کورٹ سے سزا کے بعد عدالت عالیہ میں سزا کے خلاف اپیل، سزا معطلی کی درخواست، اس کے علاوہ اڈیالہ جیل سے منتقلی اور جیل میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق درخواستیں بھی کی گئیں۔
ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں توشہ خانہ سے متعلق درخواستیں
ٹرائل کورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست مسترد کی تھی، جس کے بعد چار جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرنےکا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ واپس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا اور ٹرائل کورٹ کو عمران خان کے وکیل کے دلائل پر دوبارہ فیصلہ کرنےکا حکم دیا۔
عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ ٹرائل کورٹ سات دن میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کرے۔
آٹھ جولائی کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دے دیا اور 12 جولائی کو گواہان کو شہادتوں کے لیے طلب کرلیا۔
عمران خان نے یہ فیصلہ بھی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جس کی سماعت 19 جولائی کو ہائی کورٹ میں ہوئی۔
26 جولائی کو توشہ خانہ فوجداری ٹرائل روکنے کی عمران خان کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس کی سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے کی اور ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔
31 جولائی کو عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں 342 کا بیان روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دوبارہ اپیل دائر کر دی۔ درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ’کیس کے دائرہ اختیار‘ پر فیصلے تک سیشن عدالت میں ٹرائل روکنے کی استدعا کی گئی۔
یکم اگست کو توشہ خانہ فوجداری کارروائی میں عمران خان کا دفعہ 342 کا بیان ٹرائل کورٹ میں ریکارڈ ہوا جبکہ دو اگست کو سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے ٹرائل روکنے کی درخواست کی سماعت کے بعد یہ استدعا مسترد کر دی۔
تین اگست کو توشہ خانہ کیس میں دفاع کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دے کر عمران خان کا حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ کے آرڈر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس پر عدالت نے درخواست پر آئندہ ہفتے کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔
چار اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے۔
ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں عمران خان کے وکلا کو حکم دیا تھا کہ پانچ اگست کو ہونے والی سماعت میں وہ عدالت میں موجود ہوں اور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق دلائل دیں۔
عدالت عالیہ نے قرار دیا تھا کہ دوبارہ سماعت میں کیس کے جج ہمایوں دلاور ہی رہیں گے جبکہ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
پانچ اگست کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں صبح سے شروع ہوئی سماعت میں تین بار وقفہ کیا گیا لیکن عمران خان کے وکلا دلائل کے لیے پیش نہ ہوئے، جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور اسی روز سنا دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ ٹرائل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو ’بدعنوانی‘ کا مرتکب قرار دے کر تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، انہوں نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا۔
توشہ خانہ کیس میں پانچ اگست کو ہی تیسری بار سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 اگست کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
آٹھ اگست کو عمران خان نے سزا کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سزا معطل کر کے ضمانت پر رہا کرنے کی متفرق درخواست بھی جمع کرائی۔
نو اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے ٹرائل کورٹ سے مقدمے کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اس معاملے پر سماعت کی اور سزا معطلی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی جاری کیا۔
نو اگست کو ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقلی اور دوران قید جیل میں اے کلاس کی سہولیات فراہم کرنے کی درخواست پر وفاق اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا جبکہ عمران خان کو جیل مینوئل کے سہولیات فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے آرڈر جاری کیا کہ جیل مینوئل اور جن سہولیات کے چیئرمین پی ٹی آئی حقدار ہیں وہ دی جائیں۔
10 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی کے حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر بینچ کی عدم دستیابی کے باعث سماعت نہ ہو سکی۔
22 اگست کو اس معاملے پر سماعت ہوئی لیکن الیکشن کمیشن نے کچھ وقت طلب کر لیا، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے حکام کو چیئرمین پی ٹی آئی سے سینیئر وکلا بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کو ملاقات کی اجازت دینے کی ہدایات جاری کیں۔
عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا بھی مسترد کی اور 24 اگست کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔
توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کیا ہے؟
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں دسمبر2022 میں بھیجا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس ٹرائل کورٹ میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 ،170 ،167 کے تحت بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ ’عدالت شکایت منظور کرکے
عمران خان پر کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل کرے اور انہیں سیکشن 167 اور 173 کے تحت سزا دے۔‘
ان دفعات کے تحت تین سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
توشہ خانہ نااہلی ریفرنس فیصلہ کیا تھا؟
الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 21 اکتوبر 2022کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کروانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے غیر واضح بیان جمع کروایا، عمران خان نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن137 (اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کروانا)، سیکشن167 (کرپٹ پریکٹس) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروانا) کی خلاف ورزی کی ہے، لہذا وہ الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔
توشہ خانہ ریفرنس کس نے دائر کیا تھا؟
چار اگست 2022 کو مسلم لیگ ن کے رہنما محسن نواز رانجھا نے حکمران الائنس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قانونی ماہرین کے دستخطوں کے ساتھ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تخائف کی تفصیلات شئیر نہ کرنے پر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں سرکاری تخائف کو بیرون ملک بیچنے کا الزام بھی لگایا گیا اور تمام دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس کے ہمراہ جمع کروائے گئے تھے۔