چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ کی کارروائی کا انتظار کیا جائے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال بدھ کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں متفرق درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا: ’توشہ خانہ کیس کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بادی النظر میں غلطیاں ہیں، لیکن ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا ہے۔ ’ہائی کورٹ کے احترام میں عدالت کل تک انتظار کرے گی، ٹرائل کے قانونی نکات کا تقاضہ پورا ہونا چاہیے، ٹرائل کورٹ نے اختیار سماعت ہائی کورٹ کے مسترد شدہ فیصلے پر انحصار کرکے فیصلہ سنا دیا۔
’درخواست گزار نے 342 کے بیان میں کہا کہ وہ گواہان پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گواہان پیش کرنے کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کی کہ گواہان متعلقہ نہیں۔ پانچ اگست کو دو یا تین بار کیس کال کر کے ایکس پارٹی فیصلہ سنا دیا گیا۔‘
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے توشہ خانہ کیس میں مختلف درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ کے دوسرے اراکین میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف تین درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
’چیئرمین پی ٹی ائی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ چھ اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نااہلی کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھیجا، جس میں سابق وزیراعظم پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا گیا اور سپیکر نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے سوالات اٹھائے کہ کیا ایک رکن قومی اسمبلی دوسرے رکن کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے اور ایک رکن اسمبلی نے دوسرے ممبر کے خلاف کس قانون کے تحت اسپیکر کو درخواست دی؟
چیف جسٹس نے بھی وکیل سے دریافت کیا کہ سیشن عدالت میں کیا آپ کا مؤقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟
اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ان کے مؤقف کے مطابق توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہیے تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال بتائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا۔
انہوں نے وکیل سے دریافت کیا کہ قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا: ’جائزہ لینے سے مراد ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں؟ قتل نہ ہو تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے نہ کہ شکایت کی قانونی حیثیت پر۔ ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہو چکا ہے اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟
موجودہ کیس کا سزا کے خلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہو گا؟
ان سوالات پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانا ہوں گی۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ تاحکم ثانی کوئی فوجداری کارروئی نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کریں گے۔
چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ درخواست وہاں ہی دائر ہو سکتی ہے جس عدالت کی توہین ہوئی ہے۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کے حکام کو روسٹرم پر بلایا اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے عمران کان کے تمام اعتراض پر فیصلہ کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا: ’بطورِ کورٹ آف لا ہم نہیں چاہتے یہ معاملہ بار بار ایک سے دوسری جگہ جائے۔ ہائی کورٹ نے جو معاملات ریمانڈ بیک کیے بہتر نہیں ہو گا ہائی کورٹ بھی ان پر اپنا مائنڈ اپلائی کرے۔ کیا فوجداری مقدمات کی سماعت ایسے ہوتی ہے کہ ایک ہی دن میں سزا ہو جائے؟
جسٹس مظاہر نے بھی سوال اٹھایا کہ کیا قانون میں حق دفاع ملزم کا حق نہیں؟ قانون میں استغاثہ کو بھی سات دن کا وقت دیا جاتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کچھ گواہان کو ملزم پیش نہیں کر سکتا انہیں عدالت خود بلاتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے لیے ملزم کو کتنے دن کی مہلت دی تھی؟ یا پھر ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں تین چار بار کیس کال کر کے فیصلہ کر دیا؟ ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سات دن میں کرنے کا کہا اور ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں ایسا کر دیا۔
ایڈیشنل ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ دفاع کا حق دینا قانونی طور پر لازمی ہے۔ ’ٹرائل کورٹ اٹھائے گئے ان تمام نکات پر فیصلہ دے چکی ہے۔ فیصلے کے خلاف کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل پر سماعت مقرر ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ پانچ اگست کو ملزم کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا تو سزا سنا دی گئی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا ملزم نے گواہ پیش کرنے کا کہا تھا؟ ’ٹرائل کورٹ کو اتنی کیا جلدی تھی جو صفائی کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ ٹرائل کورٹ نے اپنے کالعدم شدہ فیصلے کی بنیاد پر کیسے فیصلہ کر دیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر امجد پرویز نے بتایا کہ ملزم کے گواہان کو عدالت نے غیر متعلقہ قرار دیا تھا۔
چیف جسٹس نے نکتہ اٹھایا کہ فوجداری کیس میں گواہ کو غیر متعلقہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ’اس طرح تو فیصلے میں غلطیاں ثابت ہوگئی ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود عمران خان کے پاس داد رسی کا فورم موجود ہے۔
وکیل امجد پرویز نے وضاحت کی کہ ملزم کی عدم حاضری پر ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیسے کر دیا؟ ’ملک کی کسی بھی عدالت میں فوجداری کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر فیصلہ نہیں ہوتا۔ توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ کسی ملزم سے گواہان پیش کرنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے توشہ خانہ اپیلوں پر سماعت جمعرات دن 2 بجے تک ملتوی کر دی۔
عمران خان کی اپیل وکیل خواجہ حارث احمد کے توسط سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو معطل کیا جائے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 5 اگست کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو تین سال قید کی اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسی کیس کی کچھ اپیلیں ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا ہیں۔