اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت جمعے کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل امجد پرویز نے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ انہیں مزید دلائل کی تیاری کے لیے مزید دو سے تین گھنٹے درکار ہوں گے۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا: ’آج کی سماعت یہیں روکتے ہیں، باقی سماعت کل کریں گے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمعرات کو توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے ان کے دوسرے وکیل خواجہ حارث کا بیان حلفی ٹرانسکرپٹ کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیش نہیں ہو رہے کیونکہ ان کے منشی کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ وہ تین گراؤنڈز پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی سزا معطلی کے لیے دلائل دیں گے۔
لطیف کھوسہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ سے پہلے کیس کے دائرہ اختیار تعین کرنے کی استدعا کی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ عمران خان کو ٹرائل کورٹ نے تین سال کی سزا دی، جبکہ صدر عارف علوی نے یوم آزادی پر قیدیوں کی سزاؤں میں چھ ماہ کی معافی کا اعلان کیا تھا، جس کا فائدہ عمران خان کو بھی پہنچا۔
ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ موجود نہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ادارے کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے اور اس کی اجازت سیکریٹری الیکشن کمیشن نے دی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟
جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کو بھی نظر انداز کیا، جبکہ فیصلے میں بھی بہت خامیاں ہیں۔
لطیف کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سزا کی معطلی کے تین گراؤنڈز ہیں، جن میں شارٹ سینٹینس اور کیس کے عدالتی اختیار کا معاملہ ہے۔ ’سیشن عدالت براہ راست الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی۔ ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ درست فورم پر دائر نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لطیف کھوسہ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس نے حتمی فیصلے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی وجوہات سے متعلق استفسار کیا، جس پر وکیل نے جواب دیا: ’وجوہات نہیں دی گئیں۔ ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا۔ سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا۔‘
اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا: ’ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو جانچے بغیر اسی روز غیر متعلقہ قرار دیا اور نہ صرف ملزم کے دفاع کا حق ختم کیا بلکہ خواجہ حارث کی بحث بھی نہیں سنی۔‘
اس کے بعد وکیل سلمان اکرم راجہ نے مختلف کیسز میں عدالتی ریفرنسز کے حوالے پڑھ کر سنائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا: ’یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے۔ سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹ پر گہرائی میں نہیں جائے گی۔ یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حق دفاع ہی نہیں دیا گیا۔‘
وکیل الیکشن کمشنر نے کہا کہ گوشوارے اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کروائے جاتے ہیں اور یہ کلائنٹ نے بتانا ہوتا ہے کہ اس کے اثاثے کیا تھے۔
’چیئرمین پی ٹی آئی کے خاندان کے پاس تین سال تک کوئی جیولری یا موٹر سائیکل تک نہیں تھا۔‘
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں تو خود نہیں کر سکتا۔‘