پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے علاقہ ماڑی انڈس کی رہائشی مختیار شاہین ایک سماجی کارکن ہیں جو پچھلے 20 برس سے خواتین کے مسائل سے متعلق آگاہی اور اس کے حل میں مدد دیتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مختیار شاہین نے بتایا کہ ’یہ 2003 کی بات ہے جب میرے ابو ایک ہوٹل پر چائے پی رہے تھے کہ ان کے پاس چند لوگ آئے۔
’انہوں نے میرے والد صاحب کے سامنے اخبار رکھا اور کہا کہ یہ دیکھو تمہاری بیٹی کی تصویر اخبار میں شائع ہوئی ہے جبکہ یہ ہمارا کلچر نہیں ہے کہ ہماری بہنوں بیٹیوں کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوں اور لوگ انہیں دیکھتے پھریں۔
’ اس پر میرے والد نے کہا کہ خواتین کے بھی حقوق ہیں اگر دائرے میں رہ کرعورت کام کرے تو کوئی پابندی نہیں۔
’ہمارے علاقے کی خواتین بھی تو سیاست میں ہیں ان کی تصاویر بھی تو اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی پر پورا یقین ہےاور میانوالی جیسے قدامت پسند علاقے میں اس کا خواتین کے لیے کام کرنا خوش آئند ہے۔‘
مختیار شاہین نے 2003 سے ’نورویمن ویلفیئر آرگنائزیشن‘ کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جو خواتین کو سلائی کڑھائی، کمپیوٹر کورس، ہینڈی کرافٹ اور دیگر ہنر سکھانے میں مدد دیتا ہے۔
2013 میں مختیار شاہین نے اپنی مدد آپ کے تحت خواتین کو وراثت میں حصہ دلانے کے لیے شناختی کارڈ اور بچوں کے ب فارم بنانے کے کام کا آغاز کیا تو انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ بتاتی ہیں کہ لوگ کہتے تھے کہ ’ہم اپنی خواتین کو نادرا آفس جا کر مرد کے سامنے بیٹھا کر تصویر بنوانے کے حق میں نہیں اور نہ ہی ان کے شناختی کارڈ بنائیں گے۔‘
کافی دفعہ متعلقہ مردوں اور خواتین سے کئی کئی ملاقاتیں اور رہنمائی کے بعد ان مردوں کا یہی مطالبہ تھا کہ نادرا وین یہاں منگوا دو تو، جس پر مختیار شاہین نے نادرا حکام سے موبائل وین اس علاقے میں بھیجنے کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مختیار شاہین بتاتی ہیں کہ ’علاقے میں خاصی مشاورت کے بعد چند خواتین شناختی کارڈ بنوانے پر راضی ہوئیں، اس کے بعد میں نے علاقے کی مختلف یونین کونسلز میں جا کر خواتین اور ان کے مردوں کو حوصلہ افزائی کی اور انہیں شناختی کارڈ کی اہمیت بارے آگاہی دی تو لوگ آہستہ آہستہ راضی ہونے لگے۔‘
مختار شاہین بتاتی ہیں کہ’ ہم نے تحصیل عیسیٰ خیل کے علاقے خدوزئی میں ایک ایسی خاتون کا شناختی کارڈ بھی بنوایا جس کی بڑی بچی کی عمر 24 سال دوسری کی 22 سال اورتیسری بچی کی عمر 18 سال تھی اور ان کی والدہ کا شناختی کارڈ نہیں تھا۔
’میں نے ان کے گھر جا کر ان کو کہا کہ آپ اپنے شناختی کارڈ بنوائیں یہ بہت ضروری ہے تو ان کے مردوں نے کہا کہ ہم اپنی خواتین کو نادرا آفس ہرگز نہیں بھیجیں گے۔
’ہم پردے کے پابند ہیں لیکن میں نے ان سے چار پانچ بار ملاقاتیں کیں اور انہیں قائل کیا اور شناختی کارڈ کی اہمیت سے آگاہ کیا تو اس پر ان مردوں کا کہنا تھا کہ نادرا وین ہمارے گھر کے قریب ترین آ جائے تو تب ہم شناختی بنوائیں گے۔
’جس پر میں نے نادرا حکام کو شناختی کارڈ موبائل وین اس علاقے میں بھیجنے کی درخواست کی تو وہ منظور کر لی گئی اور ان خواتین کے گھر کی دہلیز پر نادرا وین میں آ کر انہوں نے اپنے اپنے شناختی کارڈز بنوائے۔‘
مختار شاہین نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں خواتین کو مردوں کے ساتھ بیٹھ کر کمیونٹی سیشن کرنا یا انہیں کسی بات پر آگاہی دینا اچھا نہیں سمجھا جاتا تو اس وجہ سے ہمیں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔
ضلع میانوالی کی 56 یونین کونسلز میں سے مختیار شاہین 43 یونین کونسلز میں خواتین کے شناختی کارڈز بنوانے کا کام کر چکی ہیں اور اب تک 15ہزار سے زائد شناختی کارڈز بنوا چکی ہیں۔
اس سے خواتین کو بینظیر انکم سپورٹ، بیت المال اور زکٰوۃ پروگرام سمیت حکومت کے بہت سے پروگرامز، جن میں خواتین کے شناختی کارڈز ہونے کی وجہ سے کافی مدد مل رہی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں جائیداد میں وراثت کا حصہ بھی مل جاتا ہے۔
مختیار شاہین کا کہنا ہے کہ ’علاقے میں تھیلیسیمیا کے مریضوں اور حاملہ خواتین کو خون کی ضرورت ہو تو میں خون کے عطیات میں بھی ان کی مدد کرتی ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے علاقے کی خواتین کو ان کا حق ملے۔‘