بالآخر لاہور کے بچوں کا انتظار ختم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے اور چڑیا گھر کے لیے افریقہ سے ایک نہیں بلکہ دو ہاتھی منگوائے جارہے ہیں۔
لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں ہتھنیاں جن کی عمر 3 سے 5 سال ہے، اگلے تین ماہ میں یہاں پہنچ جائیں گی۔
حسن علی کا کہنا تھا کہ ان ہتھنیوں کے لیے پانچ کروڑ روپے ادا کیے جائیں گے جو دراصل ایک ہتھنی کی قیمت ہے۔ معاہدے کے مطابق جب ہتھنیاں لاہور کے چڑیا گھر پہنچیں گی تو انہیں ایک ماہ کے لیے الگ تھلگ یا طبی قید میں رکھا جائے گا اور اگر اس ایک ماہ کے دوران ان دونوں میں سے ایک ہتھنی مرگئی تو اس کی جگہ دوسری ہتھنی موجود ہوگی اور دوبارہ ہاتھی منگوانے کا خرچہ نہیں اٹھانا پڑے گا اور اگر دونوں ہتھنیاں ایک ماہ میں صحت مند رہیں تو معاہدے کے مطابق دوسری ہتھنی کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑے گی البتہ اسے پاکستان لانے پر آنے والے اخراجات کا نصف لاہور چڑیا گھر ادا کرے گا۔
ڈائریکٹر چڑیا گھر کے مطابق ہتھنیوں کو چارٹرڈ بوئنگ طیارے کے ذریعے پاکستان لایا جائے گا۔
1872 میں بننے والا لاہور کا یہ چڑیا گھر ایک خود مختار ادارہ ہے۔ 1992 میں افریقہ سے چھ سال کی ہتھنی ’سوزی‘ یہاں لائی گئی جو مئی 2017 میں 36 برس کی عمر میں انتقال کر گئی۔ سوزی جتنا عرصہ لاہور کے چڑیا گھر میں رہی، اکیلی ہی رہی۔ نہ اس کا کوئی ساتھی اور نہ ہی بچہ تھا جو اس کے جانے کے بعد اس کی جگہ لے سکتا۔ 2008 میں سوزی کو مصنوعی طور پر حاملہ کر نے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیاب نہ مل سکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ورلڈ ایسوسی ایشن آف زوز اینڈ ایکوریم کے 2019 میں جاری کیے گئے معیار کے مطابق ہر چڑیا گھر میں کم از کم تین مادہ ہاتھی رکھے جانے چاہییں۔ چڑیا گھر میں اتنی جگہ ہو جہاں تین ہاتھی رہ سکیں جبکہ ہاتھیوں میں دو نر ہاتھی یا پھر تین ہاتھی جن میں نر اور مادہ دونوں شامل ہوں، موجود ہونے چاہییں۔
جب اس حوالے سے لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ فی الحال تو نر ہاتھی لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے مگر مستقبل میں ہم ایسا سوچ سکتے ہیں البتہ یہ دونوں ہتھنیاں دس سال کی عمر میں جوان ہو جائیں گی تو ان کی مصنوئی افزائش نسل پر کام ضرور کیا جائے گا، چاہے اس کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چڑیا گھر میں اور بھی ایسے جانور ہیں جو کئی برسوں سے اکیلے ہیں، جن میں نر گینڈا، مادہ دریائی گھوڑا اور بن مانس (چمپینزی) شامل ہے اور ان کے جوڑے یا ساتھی منگوانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
دوسری جانب لاہور چڑیا گھر کے جانوروں کے معالج ڈاکٹر محمد رضوان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاں تک ہاتھی کی جنسی ضروریات کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا: ’چڑیا گھر میں جانوروں کی بنیادی ضروریات یعنی ان کی صحت، ان کے رہنے کی جگہ اور کھانے پینے کا مکمل خیال رکھا جائے اور انہیں مصروف رکھا جائے تو یہ کنٹرول میں رہتے ہیں۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق آپ ہاتھیوں کو مختلف کرتب سکھا دیتے ہیں، انہیں واک کے لیے لے جایا جاسکتا ہے یا انہیں خوراک دن میں تھوڑی تھوڑی کر کے دی جاتی ہے، وہ بھی مختلف طریقوں سے جیسے کبھی کسی چیز میں چھپا کر یا کہیں لٹکا کر، جسے انہیں ڈھونڈ کر کھانا ہوتا ہے اور اس طرح انہیں مصروف رکھا جاتا ہے۔ اس طرح سے ان میں نفسیاتی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔‘
ہاتھیوں کی افزائش نسل
ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک ہاتھیوں کی افزائشِ نسل کا تعلق ہے تو اس کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ آپ اس کا نر یا مادہ ساتھ رکھ لیں، مگر یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جب ہاتھیوں کے ملاپ کا وقت ہوتا، جسے ’مست سیزن‘ کہتے ہیں، اس میں نر ہاتھی کا رویہ بہت جارحانہ ہوتا ہے اور چڑیا گھر کا ماحول ایسا نہیں ہے کہ یہاں نر اور مادہ ہاتھی کو رکھا جاسکے جبکہ مادہ اگر نر کے ساتھ نہیں ہے تو وہ مست سیزن میں اپنی جنسی خواہش کا اظہار بھی نہیں کرتی۔ دوسرا طریقہ ہے کہ ان کی مصنوعی افزائش نسل کی جائے۔‘
انہوں نے بتایا: ’اگر ہاتھیوں کی جنسی ضروریات کی بات کی جائے تو ان کا ایک ٹائم ہوتا ہے، جب ان میں ہارمونل تبدیلیاں آتی ہیں۔ اب تو اچھے ڈیری فارمز والے بھی مصنوعی افزائش نسل پر ہی زور دیتے ہیں تو چڑیا گھر میں بھی ہتھنیوں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تاکہ ایک جانور ضائع ہونے سے بچ جائے۔ مصنوعی افزائش نسل کے لیے موسم کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور سردیاں اس کے لیے بہترین موسم ہے۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ ’مصنوعی افزائش نسل پیچیدہ عمل ہے اس میں ہمیں انتظار کرنا پڑے گا کہ دونوں ہتھنیاں جوان ہوں، پھر انہیں ہارمونز لگائے جائیں گے اور موسم کا خیال رکھ کر ان کی مصنوعی افزائش نسل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کوشش کی کامیابی کے بارے میں حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
ڈاکٹر رضوان کے مطابق: ’ایک ہتھنی دس سال کی عمر میں جوان ہو جاتی ہے اور اپنی زندگی میں چار سے چھ بچے پیدا کرسکتی ہے۔‘
کچھ برس پہلے اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر میں کاوان نامی ہاتھی کو زنجیروں سے باندھ کر رکھنے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ کاوان 2012 میں اکیلا ہو گیا تھا، جب اس کی مادہ ساتھی ’سہیلی‘ اس دنیا سے چلی گئی تھی۔ سہیلی کے بعدکاوان کا رویہ کافی جارحانہ ہوگیا تھا یہاں تک کہ اسے زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔ 2015 میں کاوان کے لیے جانوروں سے پیار کرنے والے افراد نے 'کاوان کو آزاد کرو' کے نام سے ایک آن لائن تحریک بھی چلائی، تقریباً چار لاکھ لوگوں نے اس پر دستخط کیے اور اس تحریک نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی۔
لاہور چڑیا گھر کے ڈائریکٹر حسن علی سکھیرا کہتے ہیں کہ کاوان کا مسئلہ جنسی ضرورت کا پورا ہونا نہیں تھا بلکہ اس کا خیال رکھنے والا کیپر اچھا نہیں تھا اس لیے اس کارویہ جارحانہ ہوگیا تھا۔ ساتھ ہی ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ’ایک جانور نہیں بتا سکتا کہ اسے کیا چاہیے، ہمیں اس کے رویے سے ہی اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ اس کی ضروریات کیا ہیں؟‘
دوسری جانب ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ ’وہ کچھ روز پہلے کاوان کو دیکھنے اسلام آباد گئے تھے اور اب اس کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے جبکہ اسے زنجیروں سے بھی رہائی مل گئی ہے۔ کاوان کی جو حالت تھی اس میں یہ دیکھا جانا چاہیے کہ اس کا کیپر کتنا اچھا ہے، اس کے رہنے کی جگہ اس کے لیے کتنی آرام دہ ہے اور اسے مصروف کتنا رکھا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہاتھی کو عام جانور کی طرح زنجیر ڈال کر ایک پنجرے میں بند نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہاتھی کے لیے چڑیا گھر میں حالات سازگار ہیں تو انہیں کنٹرول کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا، البتہ مست سیزن میں ہمیں احتیاط کرنی پڑتی ہے، لیکن اس میں بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ انہیں ادویات دے کر نیم بےہوش رکھا جائے یا زنجیروں میں باندھ دیا جائے البتہ کچھ ہارمونز لگا کر ان کا ہارمونل پروفائل تبدیل کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ مست سیزن میں کنٹرول سے باہر نہ ہوں۔‘
ڈاکٹر رضوان کے مطابق اس مسئلے کا حل مصنوعی افزائش نسل ہی ہے جو ایک مہنگا طریقہ کار ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ایک نیا ہاتھی خریدنے کے مقابلے میں یہ افزائش سستی پڑے گی اور ناپید ہوتے افریقہ کے ہاتھی بھی نسل بڑھائے بغیر ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔