سولہواں ایشیا کپ تمام تر خدشات اور تبدیلیوں کے باوجود بالاخر آج سے پاکستان کے تاریخی شہر ملتان میں شروع ہو رہا ہے۔
پاکستان اس ٹورنامنٹ کا میزبان ہے لیکن انڈیا کے اعتراضات اور پاکستان نہ آنے کے فیصلے نے ایشین کرکٹ کونسل کو مجبور کردیا کہ ایک ایسا شیڈول ترتیب دیا جائے جس میں انڈیا اپنے تمام میچ پاکستان سے باہر کھیلے۔
پی سی بی نے اگرچہ شروع سے اس پر رضامندی ظاہر کی لیکن انڈین بورڈ نے مجوزہ مقام متحدہ عرب امارات کی مخالفت کی جس کے باعث میچز کو سری لنکا اور پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔
ایک ہائبرڈ شیڈول نے اگرچہ ٹورنامنٹ کی دلکشی تو چھین لی لیکن وہ ساری کوششیں ناکام بنا دی جوپاکستان سے پورا ٹورنامنٹ چھین لینا چاہتے تھے۔
ایشیا کپ کے 13 میچوں میں سے چار میچ لاہور اور ملتان میں کھیلے جائیں گے جبکہ فائنل سمیت نو میچ سری لنکا میں ہوں گے۔
ایشیا کپ کا آغاز بدھ کو ملتان میں پاکستان اور نیپال کے درمیان میچ سے ہو گا جس کے بعد پاکستانی ٹیم کینڈی سری لنکا روانہ ہو جائے گی جہاں سنیچر کے دن انڈیا کے ساتھ اس کا مقابلہ ہو گا۔ ٹورنامنٹ میں 13 میچ کھیلے جائیں گے۔
ایشیا کپ جس کا آغاز 1984 میں شارجہ سے ہوا تھا۔ اس کا پہلا کپ انڈیا نے جیتا تھا۔ انڈیا نے سات مرتبہ یہ ٹائٹل حاصل کیا ہے جبکہ پاکستان صرف دو دفعہ ہی حاصل کر سکا ہے۔
پاکستان میں ایشیا کپ صرف ایک بار 2008 میں ہوسکا ہے ویسے 1993 میں بھی ہونا تھا لیکن انڈیا کے ساتھ کشیدگی نے ٹورنامنٹ منسوخ کرا دیا تھا۔
2008 کے ایشیا کپ کے فائنل میں یونس خان کی شاندار سینچری نے فتح کے چراغ روشن کیے تھے۔
اس طرح 15 سال کے طویل وقفے کے بعد یہ کوئی پہلا ٹورنامنٹ ہے جو پاکستان میں ہو گا لیکن اس لحاظ سے کوئی نئی بات نہیں کہ انڈیا ابھی بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں۔
ایشیا کپ اتنا متنازع کیوں
ایشین کرکٹ کونسل جو ایشیا میں کرکٹ کا ادارہ ہے اس کی فعالیت محض ایشیا کپ تک رہتی ہے لیکن اکثر اوقات وہ انڈیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ انڈیا بلاجواز ہر ایسی تجویز کی مخالفت کرتا ہے جس میں پاکستان میں کرکٹ کا فروغ اور سنسنی خیز مقابلے ہوں۔
لیکن انڈیا آئی سی سی مقابلوں میں پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے انکار نہیں کرسکتا اسی لیے وہ اپنی تمام ترمخالفت ایشیا کپ میں نکالتا ہے جہاں آئی سی سی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
حالیہ ایشیا کپ بھی اس کا ثبوت ہے کہ انڈیا کی مداخلت اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شا جو بی سی سی آئی کے سیکریٹری ہیں کی مخالفت سے پاکستان میزبان ہوتے ہوئے بھی مہمان ہی رہے گا۔
ایشیا کپ 2023 میں ٹیمیں
ایشیا کپ میں چھ ٹیموں میں سب سے کمزور اور پہلی مرتبہ کوالیفائی کرنے والی ٹیم نیپال ہے جس کے لیے اعزاز ہے کہ وہ پہلی دفعہ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ مقابلہ کرے گی۔
گروپ اے میں اس کے ساتھ انڈیا اور پاکستان بھی ہیں۔ روایتی حریفوں کو ایک گروپ میں رکھنے کی وجہ شاید براڈ کاسٹرز کا مطالبہ ہے جو ان دونوں ٹیموں کو زیادہ سے زیادہ سکرین پر دکھانا چاہتے ہیں۔
نیپال کی ٹیم اگرچہ جونیئر ہے لیکن اپنی ہم عصر ٹیموں کو شکست دے کر ایشیا کپ تک پہنچی ہے۔ سندیپ لامیچن ٹیم کے سب سےاہم کھلاڑی ہیں جو اپنی لیگ سپن بولنگ کے سبب فرنچائزز لیگز میں پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔
بنگلہ دیش کی ٹیم اگرچہ بہت متوازن ہے اور تجربہ کار آل راؤنڈر شکیب الحسن قیادت کررہے ہیں لیکن تمیم اقبال کمر کی تکلیف کےباعث علیحدہ ہوگئے ہیں جس سے بیٹنگ پر اثر پڑے گا۔
لٹن داس کی حالیہ عمدہ بیٹنگ اور مہدی حسن میراز کی عمدہ بولنگ گروپ میچوں میں اپ سیٹ کرسکتی ہے۔
سری لنکا کی ٹیم اپنی سرزمین پر ہوم گراؤنڈ کا فائدہ اٹھا سکتی ہے لیکن اس کی پاکستان کے خلاف حالیہ بدترین کارکردگی نے ٹیم مورال گرا دیا ہے۔
آل راآونڈر ہسارنگا اور دشمنتھا چمیرا کی عدم موجودگی نے ٹیم کو کمزور کردیا ہے۔ کوشال مینڈس اور کورونا رتنے کی بیٹنگ اہم ہوگی۔
اگر یہ دونوں بلے باز فارم میں آگئے تو بولنگ کو بھی سکون مل سکتا ہے۔ جو ناتجربہ کار ہے۔
اپنی شاندار سپن بولنگ سے ہر دور میں تہلکہ مچانے والی سری لنکن ٹیم آج اچھے سپنرز کو ترس رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کی ٹیم ٹورنامنٹ کی اہم ٹیم ہے اگرچہ ورلڈ رینکنگ میں نچلے نمبروں پر ہے لیکن سپن اٹیک نے سب کو پریشان کر رکھا ہے۔
راشد خان، مجیب الرحمن اور محمد نبی پر مشمل مثلث کسی بھی ٹیم کو سخت وقت دے سکتا ہے۔
افغانستان نے چند دنوں قبل پاکستان کو ایک میچ میں شکست کے دہانے پر پہنچادیا تھا بس ناتجربہ کاری کے باعث جیت نہ سکے لیکن ایشیا کپ میں وہ اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔
افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ مڈل آرڈر بیٹنگ ہے جہاں نظم وضبط کا فقدان ہے۔
رحمان گرباز اور ابراہیم زدران خطرناک بلے باز ثابت ہو سکتے ہیں لیکن باقی بیٹنگ کمزور اور ناقابل اعتماد ہے۔
انڈیا کی ٹیم نے اگرچہ حال میں کوئی ایک روزہ میچوں کی سیریز نہیں کھیلی ہے لیکن مضبوط بیٹنگ لائن کے باعث جیت کے لیے فیورٹ ہے۔ وراٹ کوہلی اور شبھ من گل اچھی فارم میں ہیں۔ روہت شرما، سوریا کمار یادو اور ہارڈک پانڈیا کی بیٹنگ کسی بھی وقت میچ پلٹ سکتی ہے۔
انڈیا کو کے ایل راہل کی فٹنس پر ابھی تک شکوک ہیں اس لیے وہ پہلے دو میچ نہیں کھیل سکیں گے۔
انڈیا کے لیے سب سے بڑی خبر جسپریت بمراہ کا صحتیاب ہونا ہے۔ وہ اپنی پوری قوت سے بولنگ کریں گے جبکہ محمد شامی اورشاردل ٹھاکر پورا ساتھ دیں گے پھر ان کے ساتھ روی جدیجا اور کلدیپ سپنر بھی ہوں گے۔
پاکستان پہلی دفعہ ایشیا کپ کے لیے ہاٹ فیورٹ
بابر اعظم اور امام الحق کی بھرپور فارم نے یقینی طورپر مخالفین کی نیندیں حرام کر رکھی ہوں گی۔ مڈل آرڈر بھی خوب چل رہا ہے سلمان علی آغا نے خود کو منوا لیا ہے۔ اگر سعود شکیل کھیلتے ہیں تو پاکستان کی بیٹنگ مزید مضبوط ہو جائے گی۔ شاہین شاہ آفریدی نسیم شاہ اور حارث رؤف پر مشتمل فاسٹ بولنگ اٹیک نے مخالف ٹیموں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
شاداب خان اور اسامہ میر سپن بولنگ کا شعبہ سنبھالیں گے۔ ٹیم ہر طرح سے مضبوط متوازن اور جیت کے لیے پرعزم نظر آ رہی ہے۔
ایشیا کپ ورلڈکپ سے بہتر کیوں
اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ ایشیا کپ ورلڈکپ سے زیادہ دلچسپ اور سنسنی خیز ہے کیوں کہ اس میں ممکنہ طور پر تین دفعہ روایتی حریف آمنے سامنے ہوں گے۔
مختصر دورانیہ اور تین بڑے میچوں کے باعث اس کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انڈیا اس ٹورنامنٹ سے اپنی جیت کی ابتدا کرناچاہتا ہے تاکہ پاکستان سے جیت کر نفسیاتی طور پر احمدآباد کا معرکہ شروع ہونے سے پہلے ہی سر کرلیا جائے۔
ایشیا کپ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں روایتی ایشین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی اور یقینی طور پر دو بڑی ٹیموں کا کھیل زیادہ دیکھا جا سکے گا جو ورلڈ کپ میں ممکن نہیں ہے۔
ایشیا کپ جو تنازعات سے شروع ہو رہا ہے اس کا اختتام کس کی جیت پر ہو گا۔ یہ تو وقت بتائے گا لیکن اگر نتائج کی پیشنگوئی کی جائے تو ناقدین پاکستان کو انڈیا سے اوپر دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کا موجودہ بولنگ اٹیک سب سے خطرناک اور نہ تھکنے والا نظر آتا ہے جس نے متعدد بار انڈین بیٹنگ کو چاروں خانے چت کیا ہے جبکہ بیٹنگ لائن کپتان بابر اعظم کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے جس سے ٹیم کا مورال بہت بلند ہے۔ اب دیکھنا ہے شاہینوں کی پرواز کتنی بلند اور سبک ہوتی ہے۔