جن مریضوں کا علاج خواتین سرجن کرتی ہیں ان کی مؤثر صحت یابی کے امکانات بہتر ہوتے ہیں اور ان میں موت کا امکان کم ہوتا ہے۔
یہ بات ایک نئی تحقیق سے سامنے آئی ہے جس نے بنیادی وجوہات پر مزید سوالات اٹھائے ہیں۔
جریدے ’جاما سرجری‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والی 10 لاکھ سے زیادہ افراد پر کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین سرجنوں کی جانب سے مریضوں کی سرجری کے بعد 90 دن اور ایک سال میں منفی نتائج کا امکان کم ہوتا ہے۔
11 لاکھ 65 ہزار 711 مریضوں کی گئی اس تحقیق میں ایک لاکھ 51 ہزار 54 مریضوں کا علاج خاتون سرجنوں اور 10 لاکھ 14 ہزار چھ سو 57 مریضوں کا علاج مرد سرجنوں نے کیا۔
محققین، جن میں کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے محققین بھی شامل ہیں، کے مطابق یہ نتائج ڈاکٹروں کی جنس کی بنیاد پر مریضوں کے علاج کے نتائج میں فرق کی توثیق کرتے ہیں۔
اسی جریدے میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں پتے کی پتھری نکالنے کے عام کیے جانے والے آپریشن کے بعد مریضوں کی صحت یابی کے حوالے سے نتائج کا جائزہ لیا گیا جس سے پتہ چلا کہ خواتین سرجنوں نے اس شعبے میں مرد ڈاکٹروں کے مقابلے میں اوسطاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
پتہ چلا کہ خواتین سرجنوں کے ہاتھوں آپریشن کے ’زیادہ سازگار نتائج‘ برآمد ہوتے ہیں اور وہ پتھری نکالنے کے عمل کے دوران مرد سرجنوں کے مقابلے میں ’زیادہ آہستہ آہستہ کام کرتی ہیں۔‘
سویڈن کی سکین یونیورسٹی ہسپتال کے سرجن مارٹن المکوئسٹ کا کہنا ہے کہ یہ فرق مردوں اور خواتین کے درمیان خطرہ مول لینے سے متعلق مختلف رویے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر المکوئسٹ کا کہنا ہے کہ مشاہدے میں آنے والا فرق سرجن کی دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کی صلاحیت اور فیصلے کرتے وقت ’توجہ مریض پر مرکوز‘ ہونے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین سرجن کی طرف سے مریضوں پر مرکوز فیصلہ سازی کا امکان زیادہ ہوتا ہے، وہ تعاون کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتی ہیں اور مریضوں کو سرجری کے لیے منتخب کرنے کے لیے زیادہ احتیاط سے کام لیتی ہیں۔
’یہ فرق خواتین اور مرد سرجنوں کے لیے مختلف نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔‘
ڈاکٹر المکوئسٹ کا کہنا ہے ’کہ جب مریض کے لیے مسلسل اچھے نتائج حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو درست اور محتاط رہنا ممکنہ طور پر خطرہ مول لینے اور رفتار سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔‘
جریدے جاما سرجری کے دونوں مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خاتون سرجنوں کو مرد سرجنز کے مقابلے میں زیادہ منظم طریقہ کار اپناتے ہوئے سرجری مکمل کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ مرد اور خاتون سرجنوں کے درمیان اس طرح کے فرق کا مزید جائزہ منفی نتائج سے بچنے کے طریقوں پر روشنی ڈال سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نتائج صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی میں آپریشن کو متنوع بنانے کے مضمرات کا جائزہ لینے میں بھی ایک اہم قدم ہیں۔
© The Independent