اپنی محنت سے خود کفیل ہونے کے بعد ارب پتی بننے والے مصری تاجر محمد الفاید وفات پا گئے ہیں۔
ان کے خاندان کے مطابق انہوں نے برطانیہ کا مہنگا ترین ہیرڈز ڈپارٹمنٹ سٹور بھی خریدا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد الفاید نے اس غیر معتبر سازشی نظریے کو فروغ دیا تھا کہ ان کے بیٹے دودی الفاید اور برطانوی شہزادی ڈیانا کی موت میں شاہی خاندان کا ہاتھ ہے۔
مصر کے شہر اسکندریہ میں پیدا ہونے والے الفاید نے اپنے کریئر کا آغاز مشروبات کی فروخت سے کیا اور پھر سلائی مشینوں کے سیلزمین کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے پہلے مشرق وسطیٰ اور پھر یورپ میں ریئل سٹیٹ، شپنگ اور تعمیرات میں پیسہ کمایا۔
اگرچہ الفاید کے پاس پیرس میں ہیرڈز، فٹ بال کلب فلہم اور رٹز ہوٹل جیسے اثاثے تھے لیکن وہ برطانیہ میں ہمیشہ سے ایک غیر ملکی شہری تھے، انہیں برداشت تو کیا جاتا تھا لیکن قبول نہیں۔
کئی دہائیوں تک برطانیہ میں رہنے کے باوجود برطانوی حکومت کی جانب سے شہریت نہ ملنے پر وہ ان سے ناراض رہے۔ وہ اکثر فرانس منتقل ہونے کی دھمکی دیتے جس نے انہیں اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ لیجن آف آنر دیا تھا۔
الفاید جو دلکش، مطلق العنان، منتقم مزاج اور بعض اوقات منہ پھٹ بھی ثابت ہو سکتے تھے، نے 10 سال تک یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ڈیانا اور ان کے بیٹے ڈودی کو 1997 میں پیرس کی ایک سرنگ میں اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ موٹر سائیکلوں پر سوار فوٹوگرافروں سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شہزادی ڈیانا دودی کے بچے کی ماں بننے والی تھیں لیکن شہزادی کی موت کی تحقیقات کے دوران ان کے دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
انہوں نے ملکہ برطانیہ کے شوہر شہزادہ فلپ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے برطانیہ کی سکیورٹی سروسز کو حکم دیا ہے کہ وہ ڈیانا کو قتل کرنے کی ہدایت جاری کریں تاکہ وہ ایک مسلمان سے شادی نہ کر سکیں اور ان کے بچے کو جنم نہ دے سکیں۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دودی اور ڈیانا کی موت کی 26 ویں برسی سے ایک روز قبل الفاید کا انتقال بدھ کو ہوا۔
خاندان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’محمد الفاید کی بیوہ، ان کے بچے اور پوتے پوتیاں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے پیارے شوہر، ان کے والد اور دادا الفاید بوڑھے ہونے کے بعد سکون کے ساتھ موت سے ہمکنار ہو گئے۔‘
اگرچہ الفاید خود ایجادی، مبالغہ آرائی اور شیخی بازی کی وجہ سے جانے جاتے تھے لیکن وہ برطانیہ کی حالیہ تاریخ کے اہم لمحات میں ایک مرکزی شخصیت بھی تھے۔
1985 میں محمد الفائد نے جب ہیرڈز خریدا تو برطانیہ کے سب سے تلخ کاروباری تنازعات میں ایک تنازعے نے جم لیا۔ 1994 میں انہوں نے اس انکشاف کے ساتھ سکینڈل کو جنم دیا کیا کہ انہوں نے سیاست دانوں کو پارلیمنٹ میں اپنی طرف سے سوالات پوچھنے کے لیے پیسے دیے۔
بہت سے ارب پتیوں کی طرح الفاید نے بھی روایات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ایک بار کہا کہ وہ ہیرڈز کی چھت پر شیشے سے بنے اہرام میں سونے کے تابوت میں ممی بننا چاہتے ہیں۔
ہیرڈز میں جہاں انہوں نے مخصوس لباس متعارف کروایا یہاں تک کہ گاہکوں کے لیے بھی۔ انہوں نے البیٹروس نامی آبی پرندے کے پروں کے نیچے رقص کے انداز میں دودی اور شہزادی ڈیانا کے مجسمے بنوائے۔
انگلش فٹ بال کلب فلہم کے مالک کی حیثیت سے انہوں نے امریکی پاپ گلوکار مائیکل جیکسن کا قد آدم سے بڑا مجسمہ نصب کروایا حالاں کہ مائیکل جیکسن نے برطانیہ میں ہونے والے صرف ایک میچ میں شرکت کی تھی۔ لوگوں کے شکایت کرنے پر الفاید نے کہا کہ ’اگر کچھ احمق مداح اس طرح کے تحفے کو نہیں سمجھتے یا اس کی تعریف نہیں کرتے ہیں تو وہ جہنم میں جائیں۔‘
ہیرڈز کی خریداری
الفاید کا زیادہ تر ماضی تاریک رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تاریخ پیدائش بھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ 1933 میں اس وقت کے برطانوی حکمرانی والے مصر میں پیدا ہوئے۔ تاہم برطانوی حکومت کی طرف سے ہیرڈز کی خریداری کی تحقیقات میں بتایا کہ وہ 1929 میں پیدا ہوئے۔
الفاید نے 1974 میں برطانیہ میں سکونت اختیار کی، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ’ال‘ کا اضافہ کیا۔ طنز مزاح پر مبنی میگزین پرائیویٹ آئی نے ان کے اس عمل کو خود بڑا ثابت کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے انہیں ’جعلی فرعون‘ کا لقب دیا۔
1985 میں محمد الفاید اور ان کے بھائیوں نے کاروباری شخصیت رولینڈ کو کاروبار میں شکست دے کر ان سے ہیرڈز سٹور خرید لیا جو دنیا کے سب سے مشہور سٹوروں میں سے ایک ہے۔
الفاید نے امید ظاہر کی کہ اس سٹور کو خریدنے سے انہیں برطانوی معاشرے میں قبولیت حاصل ہو گی لیکن اس کی بجائے تلخ تنازعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
رولینڈ، الفاید اور ان کے بھائیوں کو ٹریڈ انکوائری کے محکمے میں لے گئے اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے الفاید نے اپنی دولت کو غلط طریقے سے پیش کیا۔
تحقیقات کے نتیجے میں ان کے امیر کاروباری خاندان کا حصہ ہونے، ماضی کے کاروباری روابط اور ان کے آزاد مالی وسائل کا مالک ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔
الفاید نے 25 سال تک ہیرڈز کا مالک رہنے کے بعد 2010 میں سٹور کو قطر کے خودمختار ویلتھ فنڈ کو فروخت کر دیا۔
1995 میں حکومت نے الفاید کی برطانوی شہریت کی درخواست مسترد کر دی جس پر انہوں نے کہا کہ ان کی درخواست نسل پرستی کی وجہ سے مسترد کی گئی۔
ڈیانا اور دودی
اُس موسم گرما میں، الفاید کے بیٹے دودی اور شہزادی ڈیانا کے درمیان تعلقات کا آغاز ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیانا نے برطانوی تخت کے وارث شہزادہ چارلس کو طلاق دے دی تھی۔
دودی اور ڈیانا کی تصویر برطانوی اخبارات نے فرانس کے جنوب میں ایک کشتی پر چھٹیاں منانے کے دوران کھینچی۔
پیرس جانے کے بعد یہ جوڑا اس وقت موت کے منہ میں چلا گیا جب ان کی مرسڈیز گاڑی کو وہ ڈرائیور تیز رفتاری سے چلا رہے تھے جنہوں نے شراب پی رکھی تھی۔
ڈرائیور پیچھا کرنے والے فوٹوگرافروں سے بچنے کی کوشش میں تھے۔ اس دوران گاڑی پونٹ ڈی ایل الما سرنگ میں کنکریٹ سے بنے ستون سے ٹکرا گئی۔
غم اور ناانصافی کے شدید احساس میں مبتلا الفاید نے قانونی لڑائیوں پر لاکھوں پاؤنڈ خرچ کیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حادثے کی تحقیقات ہوں۔
لیکن جیوری کا کہنا تھا کہ جوڑا اپنے ڈرائیور کی ڈرائیونگ کے انداز کے نتیجے میں غیر قانونی طور پر جان سے گیا۔
اس موقعے پر الفاید نے کہا کہ انہوں نے اس فیصلے کو قبول کر لیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی قانونی کوششیں ترک کر دی ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اپنا بدلہ لینے کے لیے باقی سب کچھ خدا پر چھوڑ رہا ہوں۔‘