پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ آج (بروز پیر) کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں شروع ہونے والے افریقی موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ اور نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے عرب نیوز سے گفتگو میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے نیروبی کے تین روزہ دورے کے منسوخ ہونے کی تصدیق کی۔
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بتایا: ’وزیراعظم کے دورے کی منسوخی کی بڑی وجہ ان کی اندرون ملک ناگزیر مصروفیات ہیں۔‘
اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے اس ہفتے اعلان کیا تھا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ چار سے چھ ستمبر کو نیروبی میں ہونے والے افریقی سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں انہوں نے افریقی ہم منصبوں اور دیگر اعلیٰ سطح کے معززین کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ منعقد کرنا تھا۔
دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ سربراہی اجلاس میں پاکستان کی اعلیٰ سطح کی شرکت نہ صرف اس کی فعال موسمیاتی سفارت کاری کے مطابق تھی بلکہ افریقی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے اسلام آباد کے نقطہ نظر کے مطابق بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افریقی موسمیاتی سربراہی اجلاس کینیا اور افریقی یونین کا ایک مشترکہ اقدام ہے اور افریقی حکام کو امید ہے کہ یہ اجلاس براعظم کی آواز کو مضبوط بنانے کے علاوہ اس سال کے آخر میں اقوام متحدہ کے کوپ 28 موسمیاتی سربراہی اجلاس سے پہلے ایک متحد پیغام بھیجے گا۔
20 سے زیادہ افریقی سربراہان مملکت و حکومت اور اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹیریس سمیت دنیا بھر سے سینکڑوں مندوبین نے اس تین روزہ سربراہی اجلاس میں شرکت کی تصدیق کی ہے، جس میں کروڑوں ڈالر کے سودے متوقع ہیں۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے نیروبی کے دورے کی منسوخی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب حکومت کو مہنگائی اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوامی غم و غصے کا سامنا ہے۔
17 اگست کو پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اور رواں ماہ بجلی کے زائد بلوں کی وجہ سے ملک بھر میں حالیہ دنوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور دو ستمبر کو شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی۔
پاکستان میں اس ہفتے کے اضافے کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 300 روپے فی لیٹر سے زیادہ ہوچکی ہیں۔
عشروں کی بدانتظامی اور عدم استحکام کی وجہ سے دیوالیہ کو روکنے کے لیے رواں برس جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تین ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد عوامی بے چینی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ اخراجات کو کم کرنے کی خاطر سبسڈیز کو کم کیا جائے اور پیٹرولیم مصنوعات کے فی لیٹر پر 50 روپے لیوی عائد کی جائے۔
دیگر شرائط میں اضافی محصولات پیدا کرنا اور مارکیٹ پر مبنی کرنسی کی شرح تبادلہ کو اپنانا شامل ہیں، جس سے پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا، جو اگست میں 27.4 فیصد اور مئی میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔