دنیا کی بڑی معیشتوں کی تنظیم جی 20 کا دو روزہ سربراہی اجلاس انڈیا میں جاری ہے جس میں شرکت کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم رشی سونک، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس سمیت دیگر عالمی رہنما موجود ہیں۔
اس اجلاس کے پہلے روز نہ صرف افریقی یونین نے جی 20 کے باضابطہ رکن کے طور پر شمولیت اختیار کی بلکہ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو جوڑنے والی اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کا اعلان بھی کیا۔
سربراہی اجلاس کے پہلے دن کے اختتام پر ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں یوکرین میں جنگ پر روس کی مذمت نہیں کی گئی تاہم تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔
کہا جا رہا ہے کہ اقتصادی طور پر طاقتور ملکوں پر مشتمل اس تنظیم کی جانب سے کیے گئے فیصلے عالمی تجارت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور نریندر مودی خود کو ایک بین الاقوامی سیاست دان اور اپنے ملک کو خطے کے ایک اہم ملک کے طور پر متعارف کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جی 20 کے تناظر میں پاکستان معاشی اعتبار سے پیچھے کیوں ہے؟ کیا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان معیشت پر توجہ نہیں دے سکا؟ پاکستان کو درست سمت میں جانے اور معیشت کو بہتر کرکے انڈیا کے مقابلے میں آنے کے لیے پہلا قدم کیا اٹھانا ہوگا؟ پاکستان کو کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے جبکہ انڈیا خطے میں ایک ’عالمی کھلاڑی‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔
’پاکستان کی معیشت میں ناکامی کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام ہے‘
پاکستان کی جانب سے چین میں سفیر تعینات رہنے والی نغمانہ ہاشمی نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے پہلے ملک میں سیاسی استحکام لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
نغمانہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک کسی ملک کی معیشت سمیت دیگر اندرونی معاملات ٹھیک نہ ہوں ’آپ جتنا مرضی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کی کوشش کر لیں اس لیول کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا ’بدقسمتی سے پاکستان گذشتہ 40 سال میں بہت مشکل حالات سے گزرا ہے جس میں سیاسی عدم استحکام نظر آیا اور معیشت پر غیر منقسم توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ ملک افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاملات سے بھی دوچار رہا۔ پاکستان کا انڈیا سے موازنہ کریں تو ہماری معیشت کسی صورت مستحکم نہیں ہو رہی اور نہ سیاسی استحکام آ رہا ہے۔‘
’دوسری طرف انڈیا میں مسلسل سیاسی استحکام رہا ہے جو پاکستان سے زیادہ ہے۔ انڈیا میں جیسی بھی حکومتیں آئیں وہاں جمہوری تسلسل نہیں ٹوٹا اور اس سیاسی استحکام سے انڈیا کو فائدہ پہنچا ہے، انڈیا میں معاشی معاملات پر دو طرفہ اتفاق رائے بھی رہا۔‘
’پاکستان کو اندرونی اور علاقائی دباؤ کا سامنا رہا۔ پاکستان کی معیشت میں ناکامی کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ اور ایسی صورت حال میں طویل مدتی فیصلے نہیں لیے جا سکتے کیونکہ کوئی بھی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ مافیا کا مقابلہ کر سکے۔‘
ماہر معاشیات ہارون شریف کسی بھی ملک کی بگڑتی صورت حال کو اندرونی معاملات سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں ’ہم نے گھر کو مضبوط نہیں کیا۔ ہم اقتصادی مسائل سنبھالنے کے لیے جغرافیائی سیاست کا استعمال کر رہے تھے۔ پاکستان کو سب سے پہلے اپنے گھر کے معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اس معاملے پر انڈیا میں تعینات رہنے والے سابق پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا بھی خطے میں ایک اہم مقام ہے اور اسلام آباد کو انڈیا کے بڑھتے ہوئے تسلط سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو سب سے پہلے اپنے گھر کے معاملات ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور ایک ٹرائیجیکٹری متعین کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ کئی چیزیں حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان بھی ایک بڑا ملک ہے، ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ہم سٹریٹیجک محل وقوع کے لحاظ سے اہم ہیں اور پاکستان کا خطے میں اہم کردار ہے۔‘
عبد الباسط نے مزید کہا کہ ’پاکستان کو ایک ایسا راستہ طے کرنا ہے جس سے ہم کئی ایسی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں جو شاید حقیقت پسندانہ دکھائی نہ دیں۔ پاکستان کو انڈیا کے بڑھتے ہوئے تسلط سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
سابق سفیر نے کہا کہ امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کا انڈیا کی جانب جھکاؤ بڑھ رہا ہے اور ان کی پارٹنر شپ کے پاکستان کے لیے بھی سکیورٹی اثرات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے کہ جمعے کو جاری کیے گئے بیان میں ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ’چونکہ انڈیا جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے اور عالمی سطح پر خود کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔‘
’ہم نے پارلیمان اور اداروں کو نہیں چلنے دیا‘
خارجہ امور کی کوریج کرنے والے صحافی اعجاز احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادوار میں اتار چڑھاؤ آتے رہے اور پاکستان نے معیشت پر توجہ نہیں دی۔
انہوں نے کہا جب معاشرہ سیاسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے۔ ’ہمارا بنیادی مسئلہ یہی رہا کہ ہم نے پارلیمان اور اداروں کو نہیں چلنے دیا۔ ہم نے ملک کے داخلی معاملات جیسے تعلیم اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بھی نظر انداز کیا۔ ہم نے تعلیم کے بجائے مدارس پر توجہ دی جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا نے انہی شعبوں پر توجہ دی اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ ہم سے آگے ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’انڈیا نے جب بھی ترقی کی پاکستان کے لیے خطرہ بنا۔ پاکستان کو اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان پر انڈین ڈیزائن کا کیا اثر پڑے گا۔ انڈیا جہاں عالمی طاقت بن رہا ہے وہیں پاکستان کو ایشو بیسڈ پالیسی پر کام کرتے ہوئے اپنی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔‘