موسیٰ خیل کے رہائشی سمیع اللہ ایک سرکاری ملازم ہیں اور ان کا خاندان 12 افراد پر مشتمل ہے۔
ان کے گھر میں جڑواں بچیوں کی پیدائش نے خوشی کا سماں پیدا کر دیا، سب بہت خوش تھے اور والدین بھی بچیوں کی پیدائش پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔
تاہم، دونوں بچیاں پیدائش کے بعد دوسری بچیوں کی طرح نہیں تھیں جس سے والدین کو تھوڑی تشویش ہوئی لیکن انہوں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ تاہم آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بچیوں کی طبیعت بہتر نہ ہونے اور مسلسل بیمار رہنے پر والدین نے ان کا معائنہ کروایا۔
بنیادی صحت کے مرکز نے معائنے کے بعد بچیوں کو ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھیج دیا، جہاں معائنے کے بعد ان میں غذائی قلت کی تصدیق کی گئی۔
اس کے بعد صوبائی غذائی قلت کے ادارے اور یونیسف کی طرف سے ان کو آر یو ٹی ایف (غذائی قلت سے بچاؤ کے لیے خوراک) کی فراہمی شروع کر دی گئی۔
بلوچستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافے کے باعث صوبائی حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے جبکہ انسانی حقوق کمیشن نے صورتحال کو سنگین صورتحال قرار دیا ہے۔
بلوچستان کے بعض اضلاع میں یہ مسئلہ سنگین ہے اور اکثر گھرانوں کے بچے ایسے ہی مسائل کا شکار ہیں، گو کہ بلوچستان حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے تاہم قومی غذائی قلت کے سروے کے مطابق صوبے میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت کی شرح دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی حکومت کے نیوٹریشن ڈائریکٹوریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 46.6 فیصد بچے سٹنٹنگ (سوکھے، دبلے پن) کا شکار ہیں، عمر کے مطابق کم وزن کے بچوں کی شرح بلوچستان میں 31.0 فیصد جبکہ بچوں کو دودھ پلانے کی شرح 43.9 فیصد ہے۔
یاد رہے رواں سال جنوری میں صوبے میں غذائی قلت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
غذائی قلت کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے کے مطابق سات اضلاع میں عالمی بینک کے تعاون سے متاثرہ بچوں کو خوراک کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔
حکام کے مطابق بلوچستان میں غربت، شرح خواندگی کی کمی اور خوراک کا عدم تحفظ، جس سے صوبے کے 50 فیصد گھرانے متاثر ہیں، غذائی قلت کی بڑی وجہ ہے۔
غذائی قلت کسے کہتے ہیں
نیوٹریشن ماہرین کے مطابق شدید غذائی قلت دو اقسام کی ہوتی ہیں۔ پہلی قسم میں بچے لاغر، سوکھے اور دبلے پن کا شکار ہوتے ہیں۔ دو سال تک متاثرہ بچہ اکیوٹ فیز میں رہتا ہے جس کے بعد کرونک ایج میں چلا جاتا ہے، جس میں اس کا قد اور دماغ دوسرے نارمل بچوں کی طرح نہیں ہوتا، اس کا علاج نہیں ہوتا بلکہ اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
شدید غذائی قلت کا شکار ایک وہ بچہ ہوتا ہے جو پیچیدگی کے بغیر پیدا ہوتا ہے اور دوسرا پیچیدگی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ ہے، جو بچہ پیچیدگی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس کا علاج خوراک کی فراہمی سے نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے قومی غذائی سروے کے مطابق بلوچستان میں صاف پانی کی فراہمی کی شرح سب سے کم 75.3 فیصد ہے جس سے غذائی قلت اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
حکام کے مطابق عالمی بینک کے تعاون سے بلوچستان کے سات اضلاع، نوشکی، خاران، ژوب، قلعہ سیف اللہ، کوہلو، سبی اور پنجگورمیں غذائی قلت کا شکار بچوں کی سکریننگ اور خوراک کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔
غذائی قلت کے حوالے سے قائم ادارے کے نائب پروگرام منیجر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ سنگین ہے لہذا صوبائی حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے اورعالمی اداروں سے بھی مدد لے رہی ہے۔
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ہم مزید اضلاع میں کام کرنے کے لیے حکومت سے فنڈز کی فراہمی کے لیے درخواست کرچکے ہیں۔
غلام مصطفیٰ کے مطابق چونکہ کوئٹہ میں بھی اس کے شکار بچے ہیں جس کے لیے عالمی بینک کے تعاون سے کوئٹہ میں بچوں کی جانچ کے لیے چلڈرن ہسپتال میں بھی مرکز کی منظوری دی جا چکی ہے۔
گو صوبائی حکومت ایمرجنسی نافذ کر کے غذائی قلت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے تاہم دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن نے اپنی سال 2018 کی جاری رپورٹ میں اسے سنگین صورتحال قرار دیا تھا۔