مہسا امینی کی برسی: یورپ اور امریکہ کی ایران پر مزید پابندیاں

امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا: ’ہم آج مہسا کی المناک موت کو یاد کرتے ہوئے ایران کے بہادر عوام کے ساتھ اپنا عزم دہراتے ہیں جو ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

آٹھ مارچ 2023 کو جرمنی میں ایک خاتون مہسا امینی کی تصویر اٹھائے ہوئے احجاجی مظاہرے میں شریک ہیں (اے ایف پی)

ایران پولیس کی زیر حراست جان سے جانے والی 22 سالہ کرد لڑکی مہسا امینی کی پہلی برسی کے موقعے پر مغربی ممالک اور امریکی صدر جو بائیڈن نے نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا: ’ہم آج مہسا کی المناک موت کو یاد کرتے ہوئے ایران کے بہادر عوام کے ساتھ اپنا عزم دہراتے ہیں جو ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

بائیڈن نے مزید کہا، ’ایران کے عوام ہی اپنے ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے لیکن امریکہ ان کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے پرعزم ہے، جس میں اپنے مستقبل کی وکالت کرنے کی صلاحیت کی حمایت کے لیے وسائل فراہم کرنا بھی شامل ہے۔‘

مہسا امینی کی برسی ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے جب کچھ انسانی حقوق کے کارکنان تہران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس پر پہلے ہی متعدد پابندیاں عائد تھیں۔

گذشتہ سال 16 ستمبر کو تہران میں خواتین کے لیے سخت ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد پولیس کی حراست میں 22 سالہ ایرانی کرد مہسا امینی کی موت واقع ہوگئی تھی۔

ان کی موت کے بعد ’عورت، زندگی، آزادی‘ کے نعرے کے تحت ملک بھر میں کئی مہینوں تک مظاہرے ہوئے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی کہ عینی شاہدین، سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مہسا امینی کی پہلی برسی کے موقعے پر بدامنی کے خدشے کے پیش نظر ان کے آبائی گاؤں میں ایرانی سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔

پر انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن کا کہنا ہے کہ ایران کے مغربی صوبے کردستان میں مہسا امینی کی جائے پیدائش پر سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری موجود ہے۔

ایک اور کارکن نے بتایا کہ مظاہرین کے ایک چھوٹے سے اجتماع نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور جلد ہی منتشر ہو گیا۔

ناروے میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہینگو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی ایران کے متعدد کرد شہروں میں حالیہ دنوں میں خوف و ہراس کی فضا رہی۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ متعدد شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

تنظیم نے مزید کہا کہ ایران کے شہر سقز پر نظر رکھنے کے لیے فوجی اہلکاروں کو تپہ قخ پہاڑی کی چوٹی پر تعینات کیا گیا ہے جبکہ رہائشیوں نے شہر میں ہیلی کاپٹر کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا۔

مہسا امینی کی برسی کے موقع پر جو بائیڈن نے ’ایران میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی کرنے والوں‘ پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے کہا ہے کہ اس نے 25 ایرانی عہدیداروں اور ایک انٹرنیٹ سنسرشپ فرم کو اپنی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان سب کا تعلق امینی کی موت کے بعد تہران کی جانب سے مظاہروں کو دبانے سے ہے۔

اس کے علاوہ ایران کی جیلوں کی تنظیم کے سربراہ غلام علی محمدی پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن کے بارے میں امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ تشدد اور ریپ سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

تین سرکاری میڈیا گروپس پریس ٹی وی، تسنیم نیوز اور فارس نیوز کو بھی بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔

یہ پابندیاں یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کرعائد کی گئی تھیں۔

برطانوی پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں ایران کے وزیر ثقافت و اسلامی رہنمائی محمد مہدی اسماعیلی، تہران کے میئر علی رضا زاکانی اور ایرانی پولیس کے ترجمان سعید منتظرالمہدی شامل ہیں۔

وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا، ’ایران کے جابرانہ قوانین کے ذمہ داروں پر آج کی پابندیاں ایک واضح پیغام دیتی ہیں کہ برطانیہ اور ہمارے شراکت دار ایرانی خواتین کے ساتھ کھڑے اور لوگوں پر ڈھائے جانے والے جبر کی مذمت کرتے رہیں گے۔‘

یورپی یونین نے اپنی بلیک لسٹ میں چار ایرانی عہدیداروں کو شامل کیا ہے جن میں پاسداران انقلاب کا ایک کمانڈر، دو علاقائی پولیس سربراہ اور ایک جیل کا سربراہ شامل ہے۔

دباؤ برقرار رکھنے کی امید میں امریکی ایوان نمائندگان نے مہسا امینی کے اعزاز میں بدھ کو تقریباً متفقہ ایک بل منظور کیا جس سے سپریم لیڈر علی خامنہ ای سمیت اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف پابندیوں کو ہٹانا مشکل ہو جائے گا۔

یہ برسی ایک ایسے موقع پر منائی جا رہی ہے جب امریکہ اور ایران نے چھ ارب ڈالر کے ایرانی فنڈز منجمد کرنے کے بدلے پانچ زیر حراست امریکی شہریوں کو رہا کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی شہریوں، جن میں سے ایک تقریبا آٹھ سال سے حراست میں ہے، کو اگلے ہفتے رہا کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ امریکہ پانچ ایرانیوں کو بھی رہا کرے گا۔

بائیڈن کے ناقدین نے اس معاہدے کو ’تاوان‘ قرار دیا ہے جو ایک دشمن حکومت کو مالا مال کرے گا۔ ایران نے جنوبی کوریا کو تیل فروخت کرکے چھ ارب ڈالر کمائے تھے جو جنوبی کوریا نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ امریکی پابندیوں کے خوف سے فنڈز منجمد کردیے تھے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعے کو نامہ نگاروں کو بتایا: ’جب دنیا میں کہیں بھی غیر منصفانہ طور پر زیرحراست امریکیوں کو جیل سے نکال کر وطن واپس لانے کی بات آتی ہے تو مجھے اپنے اوپر ہونے والی کسی بھی تنقید کا سامنا کرنے میں خوشی ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ رقم کی منتقلی ایک ’دانشمندانہ انتظام‘ ہے اور یہ رقم قطر میں ایک اکاؤنٹ کے ذریعے انسانی بنیادوں پر استعمال کرنے تک محدود رہے گی، تاہم تہران کا اصرار ہے کہ وہ اس رقم کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔

بلنکن نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ’ایران کے ساتھ اس کے متنازع جوہری پروگرام پر بات چیت یا مذاکرات شامل نہیں ہیں۔‘

2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے سفارتکاری جس میں ایران کے لیے پابندیوں میں بڑی نرمی کا وعدہ کیا گیا تھا، ایک سال قبل اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب توجہ مظاہرین کی حمایت پر مرکوز کر دی گئی تھی۔

2015 کے معاہدے کے تحت، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے مسترد کر دیا تھا، لیکن اب بھی یورپی طاقتوں کے ساتھ ساتھ روس اور چین کی حمایت حاصل ہے، ایران کے ہتھیاروں کے پروگرام سے متعلق پابندیاں اگلے ماہ ختم ہونے والی ہیں۔

یورپی یونین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے جمعرات کو ایک ساتھ کہا تھا کہ وہ 18 اکتوبر کے بعد بھی پابندیاں برقرار رکھیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا