نواز شریف کو واپسی پر کن قانونی مسائل کا سامنا ہو گا؟

ایڈوکیٹ سپریم کورٹ سیف الملوک کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر پٹیشنز خارج ہو جاتی ہیں تو نواز شریف کے لیے قانونی آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

نواز شریف 11 مئی، 2022 کو ویسٹ لندن میں ایک مقام سے روانہ ہو رہے ہیں (اے ایف پی/ ڈینیل لیل)

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ پارٹی کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ رہے ہیں

نواز شریف نومبر، 2019 میں علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے اور اس کے بعد سے وہ تاحال پاکستان نہیں آئے۔ انہیں بدعنوانی سمیت مختلف مقدمات کا سامنا ہے جن میں انہیں سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ اب جب کہ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا ہے تو یہ جماعت دو محاذوں پر تیاری کر رہی ہے ایک ان کے استقبال کے لیے سیاسی طور پر کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوششیں تو دوسری طرف عدالتوں سے ممکنہ ریلیف کے حصول کے لیے حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے وکلا تو پر امید ہیں کہ ان کی جماعت کے قائد کوعدالتی مقدمات کا سامنا کرنے میں مشکلات پیش نہیں آئیں گی کیوں کہ ان کے بقول نواز شریف کے خلاف قائم مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں لیکن بعض دیگر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو عدالت سے ریلیف ملنے سے قبل وطن واپسی پر جیل میں بھی جانا پڑ سکتا ہے۔

ان کی واپسی کے اعلان کے بعد پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے پارٹی کی مختلف ذیلی تنظیموں جن میں خواتین، یوتھ، اقلیتی، کسان، وکلا، پروفیشنل ونگز، علما و مشائخ ونگ، اساتذہ اور ٹریڈرز ونگز کے ساتھ مشاورتی اجلاسوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے سب سے اہم نقطہ ان کی سزا اور دیگر کیسز ہیں۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اس حوالے سے 15 ستمبر کو میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں 21 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان پارٹی صدر شہباز شریف نے کیا ہے اور نواز شریف ایک آزاد شہری کے طور پر وطن واپس لوٹیں گے اور حفاظتی ضمانت حاصل کریں گے۔

ان کے بقول: ’نواز شریف کی قانونی مشکلات دور کرنے کے لیے ایک قانونی ٹیم کام کر رہی ہے کیوں کہ وہ عدالت اور اس وقت کی حکومت کی اجازت سے بیرون ملک گئے تھے۔‘

ہفتے کو سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وکیل امجد پرویز ملک اور پارٹی رہنما عطا تارڑ نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی۔

اعظم نذیر تارڑ، ایڈوکیٹ امجد پرویز اور عطا اللہ تارڑ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ن لیگ کے قائد وطن واپس آ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔ 

اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو میں واضع کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے راوں ہفتے نیب کی متعدد ترامیم کالعدم قرار دینے کا نواز شریف کی واپسی سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر ان پر طنز کرتے ہوئے کہا، ’نواز شریف سر پر بالٹی نہیں رکھیں گے، وہ مسکراتے ہوئے عدالتوں میں پیش ہوں گے اور ان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ میرٹ پر ہوگا کیونکہ ان کے خلاف بنائے گئے جھوٹے مقدمات کی کوئی حقیقت نہیں۔‘ 

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مریم نواز کا ایون فیلڈ کیس میرٹ پر جیتا۔

’پہلے دن سے ہم نے کہا کہ بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ کیس سیاسی انجینیئرنگ کے لیے بنائے گئے تھے اور ہم نے اسے ٹرائل کے دوران ریکارڈ پر ثابت کیا۔‘

نواز شریف کے خلاف کون سے مقدمات ہیں؟

نواز شریف کو نیب کورٹ نے العزیزیہ سٹیل مل اور لندن اپارٹمنٹ کیسسز میں بالترتیب سات اور 10 سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔

سپریم کورٹ نے انہیں اقامہ کیس میں جولائی 2017 میں نااہل قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے ہٹانے اور ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کو بھی 10 سال کی قید سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں کو بری کر دیا تھا۔ 

نواز شریف کی واپسی پر کیسز کا کیا ہو گا؟

سپریم کورٹ کے سینیئر ایڈوکیٹ سیف الملوک نے مریم نواز کی کرپشن کیسز میں سزا کے بعد بریت اور اس کے نواز شریف کی سزا پر اثرات پر کہا کہ ’مریم نواز کی کرپشن کیسز میں سزا کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت کا قانونی طور پر نواز شریف کو سنائی گئی سزا پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ دونوں کیسز کی نوعیت مختلف ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے خلاف کیس یہ تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی دستاویز میں وہ مستفید مالکہ دکھائی گئیں اور ان پر الزام لگا کہ وہ دستاویز جعلی ہے۔

’وہ (دستاویز) جعلی ثابت ہونے پر انہیں سزا ملی۔ کیپٹن صفدر کو اس دستاویز کا گواہ ہونے کی سزا ملی جبکہ نواز شریف پر اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اثاثہ جات بنانے کے الزامات تھے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کو کرپشن پر سزا تو ملی ہی نہیں کیونکہ وہ اس وقت تک پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں، اس لیے اس کا اثر نواز شریف کے کیسز پر نہیں ہوگا۔ 

’جن کیسز میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اس میں ان کو حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی۔ قانون کے مطابق ان کیسز میں تب تک اپیل دائر نہیں ہو سکتی جب تک آپ جیل نہ جائیں۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں جیل سے باہر رہ کر ایک سزا یافتہ شخص اپیل دائر نہیں کر سکتا جبکہ نواز شریف کی ایک اپیل پہلے ہی خارج ہو چکی ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ایک فیصلے میں ججوں نے لکھا کہ نواز شریف وطن واپس آ کر اپیل کا حق بحال کروا سکتے ہیں ’جس کی مثال کم ملتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر نواز شریف کے وکلا عدالت میں درخواست دیں گے کہ نواز شریف جیل میں تھے اور عدالت نے علاج  کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے انہیں ملک سے باہر بھیجا اور وہ عدالت کی اجازت سے  گئے اب آپ ہمیں ضمانت دے دیں۔ 

’لیکن عدالت نے نواز شریف کی سزا تو معطل نہیں کی تھی، عدالت نے تو انہیں علاج کی غرض سے بھیجا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا نواز شریف کی قانونی ٹیم یہ نقطہ اٹھا سکتی ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق وہ علاج کے لیے باہر گئے اور چونکہ جیل سے باہر رہ کر سزا کی معطلی کے خلاف درخواست نہیں دی جا سکتی اس لیے نواز شریف کو باہر رہ کر سزا کی معطلی کے خلاف درخواست دینے کا حق دیا جائے کیونکہ وہ عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے تھے۔ 

ایڈوکیٹ سیف الملوک کی رائے میں ’نواز شریف وطن واپسی کے بعد مختصر مدت کے لیے جیل جا سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے وکلا ان کی سزا کی معطلی کے لیے درخواست دائر کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُن پٹیشنز کو سننے کے لیے فل کورٹ بنایا ہے جو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔ 

’اگر یہ پٹیشنز خارج ہو جاتی ہیں اور سابقہ قومی اسمبلی کی طرف سے کی گئی ترامیم کو جائز قرار دیا جاتا ہے تب بھی نواز شریف کے لیے قانونی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔‘  

سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ شاہ خاور نے اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’دو طرح کے ٹرائل ہوتے ہیں۔ ایک میں کوئی شخص انڈر ٹرائل تھا اور وہ ملک سے چلا جائے اور واپس نہ آئے تو اسے اشتہاری ملزم قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے اشتہاری کا جو مقدمہ چلتا ہے اس کو وقتی طور پر داخل دفتر کر دیتے ہیں اس مشاہدے کے ساتھ کہ جب وہ ملک میں واپس آئے گا اور جب اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا گرفتاری کی صورت میں، پھر اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی ہو گی۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ جو اشتہاری ہو جاتا ہے اس کے دائمی وارنٹ گرفتاری نکل آتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر وہ اشتہاری ملک میں واپس آنا چاہتا ہے تو وہ آسکتا ہے اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔

’ایک تو وہ واپس آئے اور گرفتاری دے دے۔ دوسری صورت میں وہ بیرون ملک سے ایک وکیل کے ذریعے یہ کہے کہ میں عدالت کے سامنے ہتھیار ڈالنا چاہتا ہوں، مجھے ضمانت قبل از گرفتاری کی اجازت دی جائے یا حفاظتی ضمانت دی جائے یا راہداری ضمانت دی جائے کہ میں جب واپس ایئر پورٹ پر آؤں تو مجھے اس وقت گرفتار نہ کیا جائے اور مجھے کچھ  دن دیے جائیں تاکہ میں باقاعدہ عدالت میں جا کر اپنی قبل از گرفتاری کی عبوری ضمانت کی درخواست دائر کر دوں۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح عمومی طور پر لوگوں کو حفاظتی ضمانت مل جاتی ہے۔ ’نواز شریف کے کیس میں وہ سزا یافتہ تھے۔ ان کی اپیلیں ہائی کورٹ میں التوا میں تھیں اس دوران ان کا بیماری کا معاملہ پیش آیا اور وہ ملک سے باہر چلے گئے اور اب اس وقت بھی ان کی ہائی کورٹ میں جو اپیلیں ہیں ان پر انہیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔

ایڈوکیٹ شاہ خاور کا مزید کہنا تھا کہ ایون فیلڈ کیس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی تھے لیکن ان کی حد تک عدالت نے کہا کہ چونکہ یہ ملک میں موجود ہیں اس لیے ان کی اپیل ہم سنتے ہیں جبکہ نواز شریف کو ہم اشتہاری قرار دے کر ان کا کیس داخل دفتر کرتے ہیں اور جب وہ پیش ہوں گے تو پھر ان کی اپیل دوبارہ میرٹ پر سنی جائے گی۔ 

’اب جب کیس میں سزا ہوئی ہے تو اس میں حفاظتی ضمانت نہیں ہو سکتی اس میں تو انہیں یہاں آکر عدالت کے سامنے ہتھیار ہی ڈالنے ہوں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ 199 کا جو ہائی کورٹ کا اختیار ہے اس میں ایک کام کر سکتے ہیں کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ  یہاں آکر فلاں دن عدالت کے سامنے پیش ہو جائیں گے اور انہیں عدالت میں آ کر ہتھیار ڈالنے کی اجازت دی جائے۔ 

شاہ خاور کے مطابق: ’اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم درخواست دے دیں گے کہ انہیں کچھ دن دیے جائیں تو وہ آجائیں گے۔ ایسی کوئی گنجائش آئین و قانون یا ضابطہ فوجداری میں نہیں۔

’ہر صورت میں انہیں گرفتاری ہی دینی پڑے گی۔ وہ گرفتار ہو کر اپنی پوزیشن پر واپس جائیں گے۔ پھر ان کی اپیل کے لیے درخواست دی جائے گی کہ وہ آ گئے ہیں ان کی اپیل کو کھولا جائے اور سنا جائے اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اسے اپنی سہولت کے مطابق سننے کے لیے فکس کر دیں گے، اس پر بحث ہو گی اور اگر اس میں وہ بری ہو گئے تو وہ جیل سے باہر آجائیں گے۔‘

ایڈوکیٹ شاہ خاور کہتے ہیں کہ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نواز شریف بری ہو جاتے ہیں تو کیا وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟ کیونکہ سپریم کورٹ انہیں آرٹیکل 62 ون ایف میں تاحیات نا اہل قرار دے چکی ہے۔  

انہوں نے بتایا کہ اس کا تدارک یہ ہوا ہے کہ موجودہ الیکشن ایکٹ 2017 میں پارلیمنٹ نے ایک ترمیم کر کے ایک شق کا اضافہ کر دیا ہے کہ جو لوگ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے جائیں گے تو وہ نااہلی اس نااہلی کے اعلان سے پانچ سال تک رہ سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں اور یہ شق ابھی برقرار ہے۔

’اس لحاظ سے اگر نواز شریف بری ہو جاتے ہیں تو وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ ان کی نااہلی کو پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔‘ 

سیاسی تجزیہ نگار وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ اگرچہ نواز شریف کے خلاف جس طریقے سے مقدمات کو چلایا گیا اور ان کو سزا دی گئی وہ غلط تھا تو اس وقت انہیں مبینہ طور پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریلیف دینا بھی غلط ہوگا۔ 

وجاہت کہتے ہیں کہ نواز شریف کو وطن واپس آ کر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے اور عدالتیں بغیر کیس دباؤ کے جو بھی فیصلہ کریں وہ قبول کرنا چاہیے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاسی بنیادوں پر مخالفین پر کیس بنائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کبھی ایک سیاست دان جیل میں اور دوسرا باہر تو کبھی دوسرا جیل میں اور پہلا باہر ہوتا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک نواز شریف کے مقدمات کا تعلق ہے، اس کو بغیر کسی مداخلت کے قانونی طریقے سے ہینڈل کیا جانا چاہیے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان