سپریم کورٹ آف پاکستان کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے نیب قوانین کے بارے میں جو فیصلہ کیا اس کی روشنی میں متعدد سیاسی رہنماؤں کے خلاف پینڈورا باکس پھر سے کھل گیا ہے۔
ان میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے 89 سابق ارکان پارلیمان، مسلم لیگ ن کے 62، تحریک انصاف کے 47، ایم کیو ایم کے آٹھ، پاکستان مسلم لیگ ق اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے 12، 12، اعجاز الحق کی جماعت، پختونخوا پارٹی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی کے 11 ارکان اسمبلی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ارکان اسمبلی شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران اور پرائیویٹ کاروباری اور سرمایہ کار بھی قومی احتساب بیورو کے ریڈار پر آ چکے ہیں۔ تقریباً 1809 ریفرنسز اور انکوائریاں دوبارہ کھل رہی ہیں جب کہ 700 ارب روپے کے مبینہ کرپشن کیس اس فیصلے کے مطابق کھل گئے ہیں۔
سابق صدر مملکت، سات وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ، 78 وزرا اور 1170 ارکان صوبائی اسمبلی اور 114 افسران کے کیس بھی ازسرنو احتساب عدالتوں میں چلے گئے ہیں۔
عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیے گئے اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام تفتیش، تحقیقات اور ریفرنسز، جن کو کالعدم شقوں کی بنیاد پر نمٹایا گیا تھا، کو 2022 کی ترامیم کے نفاذ سے قبل دوبارہ بحال کیا جائے گا۔
اس فیصلے کے نہ صرف پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کی باز گشت آئندہ آنے والے عام انتخابات میں بھی سنائی دے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں سے کچھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بھی ہیں۔
چونکہ پاکستان میں اشرافیہ کا مضبوط فعال گروپ متحرک ہو چکا ہے اور نگران حکومت کاروبارِ حکومت چلا رہی ہے، لہٰذا سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست حکومت پاکستان دائر نہیں کرے گی۔
متاثرہ فریق کو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کرنے کا مکمل استحقاق حاصل ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی مطلوبہ افراد کی فہرست اس فیصلے کی روشنی میں حاصل ہو جائے گی تاکہ وہ فہرست متعلقہ ریٹرننگ افسران کو بھجوائی جا سکے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج عمر عطا بندیال نے اپنے آخری فیصلے میں قومی احتساب بیورو ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قرار دے دیا ہے۔ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی قومی احتساب بیورو قانون میں ترامیم کو کالعدم قرار اور نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں میں واپس بھیجنے اور تمام تحقیقات اور انکوائریاں بحال کرنے کے احکامات دیے ہیں۔
لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے ابھی مزید رکاوٹیں موجود ہیں۔ دراصل سابق چیف جسٹس کو یہ فیصلہ 17 ستمبر سے پیشتر دینا چاہیے تھا۔ فیصلہ اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے دینے کا مقصد پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔
ادھر نئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 29ویں چیف جسٹس کے عہدے پر کام شروع کر دیا ہے۔ چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب کے دوران کئی منفرد روایات کا اضافہ ہوا۔ انہوں نے روایت سے ہٹ کر اہلیہ سرینا عیسیٰ کو تقریب میں سٹیج پر بلا لیا۔ یہ روایت سب سے پہلے امریکہ کے ایک چیف جسٹس نے 2005 میں واشنگٹن میں حلف اٹھانے سے پہلے قائم کی تھی۔
چیف جسٹس نے حلف اٹھاتے ہی سپریم کورٹ ایکٹ 2023 کے حکم امتناعی کے فیصلے پر 15 رکنی ججز کی فل کورٹ کا اجلاس طلب کر لیا اور فل کورٹ کی کارروائی براہ راست لائیو دکھائی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس کے پہلے دن تاریخی اقدامات، کئی گھنٹے طویل عدالتی کارروائی تمام ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائی گئی جس سے 15 رکنی فل کورٹ کے معزز ججز اور وکلا کے دلائل پہلی مرتبہ عوام نے محسوس کیا اور اب مزید سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی اور فل کورٹ کا فیصلہ سات اور آٹھ کے ساتھ سامنے آنے کی توقع ہے۔
ماضی قریب میں سیاسی نوعیت کے کیسوں کی بھرمار کی وجہ سے عام مقدمات غیر معمولی تاخیر کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں سیاسی کیسوں کے فیصلے کرتی رہی ہیں جن پر عمل نہ ہو سکا، جس سے عدلیہ کی غیر جانبدارانہ ساکھ متاثر ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف صدر مملکت عارف علوی سے لیا جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ان کے خلاف اثاثوں کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ریفرنس دائر کیا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف سازش کا تن تنہا مقابلہ کیا اور کامیابی سے الزامات کا دفاع کیا جس میں ان کی اہلیہ سرینا فائز عیسیٰ کا بھی بنیادی کردار تھا۔ ان کے خلاف ریفرنس ناکام ہو گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ کے کئی مشہور کیسوں کے فیصلے کیے جن کے اثرات دیر تک محسوس کیے گئے۔
قوم توقع کر رہی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سابق چار چیف جسٹسوں کے متنازع فیصلوں کی حقیقت جاننے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی مقرر کر کے قوم کو آگاہ کریں کہ ان کے سابق چیف جسٹس کن مصلحتوں کے تحت فیصلے کرتے رہے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پارلیمنٹ کے ایکٹ کو کالعدم قرار دینے سے متعلق فیصلے کے نتیجے میں آئندہ چند مہینوں کے دوران عدالتوں میں کئی مقدمات چلیں گے اور کچھ سزائیں بھی سنائی جا سکتی ہیں۔ ان سزاؤں کی زد میں نہ صرف عام اراکینِ اسمبلی بلکہ کچھ بڑی سطح کے رہنما بھی آ سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔