پاکستان کے صوبہ پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے اتوار کو کہا ہے کہ حکومت نے عوام اور ڈاکٹروں کو آنکھوں کی بینائی کو مبینہ طور پر متاثر کرنے والے انجیکشن کے استعمال سے روک دیا ہے۔
اسلام آباد میں اتوار کو نگران وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کے ہمراہ کی جانے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں نگراں صوبائی وزیر ڈاکٹر جمال ناصر نے بتایا کہ ’میڈیکل سٹورز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو بھی اس انجکشن کی فروخت سے روک دیا ہے۔‘
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’محکمہ صحت کے پاس 20 متاثرہ افراد کے نام آئے ہیں، جعلی انجیکشنز کے نمونے ٹیسٹنگ کے لیے محکمہ صحت پنجاب کی لیب بھجوا دیے گئے ہیں جن کی رپورٹ دو سے تین روز میں آجائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دراصل یہ دوا ایک کثیر الملکی ادارہ بناتا ہے اور کافی عرصہ سے استعمال ہو رہی تھی۔ اس پر منافع کی شرح زیادہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کہیں اس دوا کی سٹریلائزیشن میں یا لاٹ میں کوئی مسئلہ تو نہیں تھا۔ ہم نے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو تین روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔‘
نگران وفاقی وزیر صحت ندیم جان نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’اس بات کی بھی چھان بین کی جائے گی کہ ماضی میں بھی اس دوا سے کوئی متاثر ہوا ہے یا نہیں۔ دوا کے بیچ کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا ہے۔ اس کے متاثرین کو نہ صرف بہترین طبی سہولتیں فراہم کی جائیں گی بلکہ ان کے ہونے والی نقصان کاازالہ بھی کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب لاہور پولیس کے مطابق پنجاب میں مبینہ جعلی انجیکشن سے بینائی متاثر ہونے کے معاملے پر تھانہ فیصل ٹاؤن میں اتوار کو مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
لاہور پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقدمہ ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر لاہور حافظ عالم شیر کی مدعیت میں دو افرد کے خلاف درج کیا گیا ہے جن میں سے ایک جعلی دوا ساز ادارے کے مالک اور دوسرے ان کے دوست ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق قصور کے ڈرگ کنٹرولر نے ڈرگ کنٹرولر آفس لاہور میں شکایت کی کہ انجیکشن اے واسٹن (Avastin) جو کہ مرکزی ملزم نے سپلائی کیا تھا، اس کی وجہ سے اینڈوفیلمائٹس(Endophpalthalmitis) نامی آنکھوں کی ایک مہلک بیماری متعدد مریضوں میں ہو رہی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق اس شکایت پر ڈرگ آفس کی ایک ٹیم سائرہ میموریل ہسپتال ماڈل ٹاؤن لاہور کی تیسری منزل پر قائم ایک غیر قانونی مینیو فیکچرنگ یونٹ پر معائنہ کے غرض سے گئی جہاں ملزم موجود نہ تھے۔
پولیس کے مطابق ٹیم نے ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطہ کیا جس پر وہاں کے ایڈمن مینیجر نے غیر قانونی یونٹ کا معائنہ کروایا۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ دوران معائنہ ہسپتال کے ایڈمن مینجر سے ادویات کی تیاری کے لائسنس کے بارے میں پوچھا گیا اور واقعے کی پڑتال کرتے ہوئے ڈرگ ایکٹ 1976، ڈریپ ایکٹ 212 کی خلاف ورزی پاتے ہوئے موقع پر موجود شخص کے سامنے ایک ریکارڈ مرتب کیا گیا اور وہاں پر موجود غیر قانونی طور پر تیار کی جانے والی غیر رجسٹرڈ ادویات بشمول انجیکشن اے واسٹن کو قبضے میں لے لیا گیا۔
دوسری جانب مبینہ طور پر جعلی انجیکشن کی وجہ سے آنکھوں کی انفیکشن کے معاملہ کا جائزہ لینے کے لیے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ پانچ رکنی کمیٹی آئندہ تین دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کے کنوینر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم خان ہیں جبکہ ممبران میں ڈائریکٹر جنرل ڈرگز کنٹرول محمد سہیل، میو ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر محمد معین، لاہور جنرل ہسپتال کی ڈاکٹر طیبہ اور سروسز ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر محسن شامل ہیں۔
اس معاملے پر قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کے مینڈیٹ پر پنجاب کے وزیر برائے سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جاوید اکرم نے اتوار کو انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو یہ تحقیق کرے گی کہ جعلی انجیکشن مارکیٹ اور ہسپتالوں تک کیسے پہنچا؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس انجیکشن کی قیمت بہت زیادہ ہے لیکن یہ مارکیٹ میں 1200 روپے میں مل رہا تھا۔ کمیٹی دیکھے گی کہ ہسپتال کے کون کون لوگ اس میں ملوث ہیں۔ کمیٹی کی رپورٹ آںے کے بعد تمام ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔‘
اے واسٹن انجیکشن کب اور کیوں استعمال ہوتا ہے؟
ایک سرکاری ہسپتال کے آنکھوں کے شعبے کی رجسٹرار ڈاکٹر سعدیہ امتیاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آنکھوں کے ایسے مریض جو کہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوں ان کی آنکھوں کے پردے کے آگے خون کے ذرات آجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔
’اس کے لیے مارکیٹ میں مختلف فارمولے دستیاب ہیں جو کہ ایف ڈی اے کے منظور شدہ ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی قیمت ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے ایسے مریضوں کو ایک ایک مہینے کے وقفے سے کم از کم تین انجیکشن دینے ہوتے ہیں جو کہ عام مریض کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔
’ایسی صورت میں اے واسٹن انجیکشن کا مشورہ دیا جاتا ہے جس کا ایک انجیکشن 1200 سے 1500 روپے میں ملتا ہے کیوں کہ یہ صفر عشاریہ پانچ ملی لیٹر سے ایک ایک ملی لیٹر تک کی مقدار میں ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر سعدیہ امتی کا کہنا تھا کہ یہی انجیکشن بڑی آنت کے کینسر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں دوا کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ انجیکشن خود لے آئیں اور بہت سے مریض ایسی جگہوں سے یہ انجیکشن لیتے ہیں جہاں کینسر کے علاج کی ادویات دستیاب ہوں۔‘
ڈاکٹر سعدیہ امتیاز نے بتایا کہ ’دیگر مہنگے انجیکشنز رجسٹرڈ ڈسٹری بیوٹرز فراہم کرتے ہیں جبکہ اے واسٹن 100 ملی لیٹر کی پیکنگ میں آتا ہے اور مقامی ڈسٹری بیوٹر اس میں سے مطلوبہ مقدار کے سرنج میں فراہم کر دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سعدیہ نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اس عمل کے دوران دوا کی کولڈ چین متاثر ہوئی ہو یا پھر جراثیم کشی کا عمل جس کی وجہ سے مریضوں پر دوا کا اثر الٹا پڑ گیا اور مریضوں کو Endophpalthalmitis)) ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بیماری میں مریضوں کی آنکھ کے پیچھے کی رگیں انفیکشن کا شکار ہو جاتی ہیں جس سے ان کی بینائی متاثر یا ختم ہو جاتی ہے۔
کیا بینائی واپس آسکتی ہے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر سعدیہ کا کہنا تھا کہ ’یہ صورت حال ہر مریض کے لیے مختلف ہو سکتی ہے اگر انفیکشن بہت زیادہ ہو یا پرانی ہوجائے تو بینائی واپس نہیں آتی اور اگر انفیکشن حال ہی میں ہوئی ہو اور اس کی تشخیص ہو جائے تو بینائی واپس آںے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔