جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق پاکستان میں مویشیوں میں درد کش دوا ڈیکلوفینک کے استعمال سے گِدھوں کو خطرہ لاحق ہے اور ان کی نسل معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
گِدھ مردہ جانوروں کا گوشت اور ان کا فضلہ کھاتے ہیں، جس سے قدرت کے نظام میں توازن برقرار رہتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا کہ حالیہ برسوں میں ڈیکلوفینک نامی دوا کے جانوروں پر استعمال کرنے سے گِدھوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق: ’ڈیکلوفینک مویشیوں پر استعمال ہونے والی دوا ہے، جس پر جنوبی ایشیا میں 2006 میں پابندی عائد کی گئی تھی اور پابندی کے بعد گِدھوں کی نسل میں خاصی بہتری دیکھنے کو ملی تھی۔‘
تاہم اب مویشیوں میں ڈیکلوفینک اور دیگر دوائیں جیسے ایسکلوفینک اور کیٹوپروفن کے استعمال کے باعث گِدھوں کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 2012 سے پاکستان میں سندھ کے علاقے نگر پارکر میں گِدھ سیف زون قائم کیا گیا ہے، جہاں چار مختلف اقسام کے گِدھوں کی نسل کو بچانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اسی ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2006 میں 287 سے بڑھ کر پاکستان میں گِدھوں کی تعداد 2015 میں 358 تک پہنچ گئی تھی لیکن 2023 میں یہ تعداد کم ہوکر 233 رہ گئی ہے۔
ڈیکلوفینک گِدھوں کے لیے کیوں خطرناک ہے؟
ڈیکلوفینک پین کلر یا درد کش دوا ہے جو مویشیوں سمیت انسانوں کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے، تاہم 2006 میں نیپال اور انڈیا سمیت پاکستان نے بھی مویشیوں پر اس کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی، جس کی وجہ گِدھوں کی نسل کو پہنچنے والا نقصان تھا۔
امریکہ کے صحت عامہ کے سرکاری ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز (این ای ایچ) کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق پہلی مرتبہ 2004 میں ایک تحقیق کے دوران یہ پتہ چلا کہ مویشیوں پر ڈیکلوفینک دوا کے استعمال سے گِدھوں کی نسل ختم ہو رہی ہے۔
اسی مقالے کے مطابق 1990 سے گِدھوں کی نسل 95 فیصد کم ہوگئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ڈیکلوفینک میں موجود مواد ہے، جو گِدھوں کے گردوں کو متاثر کرتا ہے۔
مقالے میں مزید لکھا گیا ہے کہ مردہ گِدھوں کی مختلف پوسٹ مارٹم رپورٹوں میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈیکلوفینک کے اثر سے ان کے گردوں کے ٹشوز پر برے اثرات مرتب ہوئے۔
ابھی تک اس دوا سے جنوبی ایشیا میں گِدھوں کی تین اقسام (وائلڈ جی، بنگالینسز اور جی) متاثر ہوئی ہیں لیکن خدشہ یہی ہے کہ اس سے گِدھوں کی جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی دیگر پانچ اقسام بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔
کیا ڈیکلوفینک کا استعمال اب بھی ہو رہا ہے؟
پشاور میں ویٹرنری کلینک چلانے والے ڈاکٹر وقار علی خان نے اس سوال کے جواب میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈیکلوفینک کا استعمال وہ مویشییوں پر نہیں کرتے کیونکہ اس پر پہلے سے پابندی عائد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ مارکیٹ میں مویشیوں کے لیے درد کش دوایئوں کی دیگر برانڈز موجود ہیں اور جانور کی بیماری کو دیکھ کر ڈاکٹر اس کے مطابق کوئی بھی درد کش دوا تجویز کرتا ہے۔
تاہم خیبر پختونخوا لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر اور سینیئر ویٹرنری ڈاکٹر ڈاکٹر معصوم شاہ اس سے برعکس بات کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈیکلوفینک کا استعمال آج بھی ہو رہا ہے اور زیاہ تر نان پروفیشنل کمپاؤنڈر اس قسم کی ادویات کا استعمال مویشیوں پر کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈیکلوفینک ہی کے مواد سے بنائی گئی دوائیں دیگر ناموں سے بھی مارکیٹ میں موجود ہیں، جسے نان پروفیشنل افراد مویشیوں میں بخار کو کم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’مویشیوں کے علاوہ بعض نان پروفیشنل افراد تو انسانوں کے لیے بنائی گئی ڈیکلوفینک دوا بھی جانوروں کو دے دیتے ہیں، جس سے گِدھوں کی نسل کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘
اسی طرح ڈاکٹر معصوم کے مطابق صرف ڈیکلوفینک ہی نہیں بلکہ کچھ دیگر دوائیں بھی ہیں جو مویشیوں پر استعمال ہوتی ہیں اور ان جانوروں کا گوشت جب انسان کھاتے ہیں تو اس سے مختلف مسائل جنم لیتے ہیں۔